کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 177
دوسرا ان کی عقلی، نفسیاتی اور جسمانی نشوونما جس کی بدولت وہ خیروبھلائی کی مائل ہوں ۔
قرآن کریم کے قسط وار نزول میں مذکورہ دونوں چیزوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں نفس انسانی کی اصلاح، اس کی چال ڈھال میں استقامت اور اس کے تشخص میں امت اسلامیہ کی تربیت کرنے کے لیے ایک فطری تدریجی نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔ تاکہ انسانیت اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے اور انسانیت کی بھلائی کے لیے اپنا پاکیزہ پھل دیتی رہے۔ اس لحاظ سے قرآن کریم کا قسط وار نزول اس امت کے لوگوں کے لیے اسے سمجھنے، یاد کرنے، پڑھنے پڑھانے، معانی و مطالب میں غوروفکر کرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے لیے بہترین معاون ثابت ہوا۔
قرآن کریم کی پہلی وحی نے ہی پڑھنے، علم حاصل کرنے کے لیے قلم کی اہمیت کو بیان کیا فرمایا:
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ.﴾ (العلق: ۱۔۵)
سود اور وراثت کی آیات، نظامِ مال اور آیاتِ قتال اسلام اور شرک کے درمیان فرق کرنے کے لیے نازل ہوئیں ، اس اسلوب میں بہت سے تربیتی پہلو پائے جاتے ہیں جو اسلامی معاشرے تو بتدریج کمزوری سے قوت کی طرف اور قوت سے جنگی مہارت کی طرف لے جاتے ہیں ۔
جس تعلیمی نظام کے ہر مرحلہ میں طلبہ کی ذہنی استعداد، علوم کی جزئیات وکلیات اور اجمال سے تفصیل کی طرف لے جانے کے اصولوں کا خیال نہ رکھا گیا ہو یا طالب علم کی شخصی، عقلی، نفسیاتی اور جسمانی نشوونما کا خیال نہ رکھا گیا ہو وہ نظام بے سود ہوتا ہے، امت اس سے سوائے جمود اور فکری پسماندگی کے کچھ حاصل نہیں کرپاتی۔
جو استاد طلبہ کو مناسب علمی مواد نہیں دیتا بلکہ ان پر ایسا بوجھ لکھ دیتا ہے جسے وہ یاد کر پاتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں یا پھر انہیں مافوق الادراک باتیں بتاتا ہے، اور انہیں اخلاق رذیلہ سے بچنے اور نافرمانی کے علاج کی تدبیر نہیں بتاتا اور کسی بھی معاملے کو دلجمعی اور حکمت عملی سے حل کرنے کا طریقہ نہیں بتاتا تو ایسا استاد طلبہ پر ظلم کر رہا ہوتا ہے، نیز ایسا مدرس ایک ناکام استاد ہوتا ہے جو تعلیمی