کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 176
سُوَر کی ترتیب میں یہ اس ہار کی طرح ہے جس کے موتی بڑی نفاست سے ترتیب سے دیئے گئے ہوں اور انسانی کلام میں اس کی مثال نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ.﴾(ہود: ۱) ’’ ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں ، پھر انہیں کھول کر بیان کیا گیا، ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ اور اگر یہ قرآن کسی انسان کا کلام ہوتا اور اسے متعدد مناسبات اور مسلسل واقعات وحوادث کے پیش نظرمرتب کیا گیا ہوتا تو یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا اور اس میں اس قدر مطابقت اور ہم آہنگی نہ ہوتی۔ فرمایا: ﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.﴾ (النساء: ۸۲) ’’اور اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ چناں چہ احادیث رسول جو کہ قرآن کے بعد فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ درجہ پر ہیں انہیں بھی ایسی کتاب میں جمع نہیں کیا گیا جس میں قرآن کی طرح عبارت کی روانگی ، لفظوں کی بناوٹ کی دل کشی اور ہم آہنگی ویکسانیت پائی جاتی ہو۔ جب حدیث کا معاملہ یہ ہے تو باقی لوگوں کی باتوں کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا.﴾ (الاسراء: ۸۸) ’’کہہ دیجیے اگر جن وانس اس قرآن جیسا لانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو ایک دوسرے کے معاون ہونے کے باوجود بھی اس جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔‘‘ (دیکھیے: مناہل العرفان للزرقانی: ۱/۵۴) قسط وار نزول قرآن کے تعلیمی وتربیتی فوائد: تعلیمی میدان میں دو بنیادی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک طلبہ کی ذہنی استعداد اور