کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 175
توبہ کی قبولیت کی خبر دی :
﴿لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ اِنَّہٗ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ. وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.﴾ (التوبہ: ۱۱۷۔۱۱۸)
’’اللہ تعالیٰ نے تنگی کے وقت نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی اتباع کرنے والے انصار ومہاجرین پر رجوع کیا جب ان میں سے ایک فریق کے دل ٹیڑھے ہو چکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بے شک اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نرمی اور رحم کرنے والا ہے۔ اور ان تین لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائی جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ جب ان پر زمین فراخی کے باوجود تنگ پڑ گئی اور وہ اپنے آپ سے تنگ آگئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب اللہ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ خوب توبہ قبول کرنے والا اور خوب رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (اخرجہ البخاری ومسلم وغیرھما)
نزولِ قرآن کے اس انداز کے بارے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اشارہ کرتی ہے کہ جبریل علیہ السلام لوگوں کے کلام اور اعمال کے جواب میں قرآن لے کر اترتے تھے۔(اخرجہ الطبرانی والبزار عن ابن عباس واخرجہ ابن ابی حاتم من ومن وجہ اخر)
پانچویں حکمت: اس پر واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے:
قرآن کریم بیس سال سے زیادہ عرصے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایک یا چند آیات کی صورت میں مختلف ادوار میں نازل ہوا لیکن انسان جب اس کی تلاوت کرتا ہے کہ تووہ دیکھتا ہے، اس میں بے مثال ترکیب، بناوٹ کی باریک بینی، معانی کا باہمی ربط، اسلوب کی روانگی اور آیات و