کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 174
کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے؟ جس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کہا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: مجھے اختیار دیا ہے مجھ سے یہ کہا گیا ہے:
﴿اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ﴾ (التوبہ: ۸۰)
اگر مجھے علم ہو کہ ستر دفعہ سے زیادہ پڑھنے کی وجہ سے اسے بخش دیا جائے گا تو میں کرنے کو تیار ہوں ۔ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، پھر چلے، جا کر اس کی قبر پر کھڑے ہوئے اور تدفین تک وہیں رہے۔ عمر کہتے ہیں : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح جرأت کرنے پر حیرت بھی ہوئی، حالانکہ اللہ اور رسول کے بہتر جانتے تھے، اللہ کی قسم! تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ یہ دو آیات نازل ہوئیں :
﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍمِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ فٰسِقُوْنَ. وَ لَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَ اَوْلَا دُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَ ہُمْ کٰفِرُوْنَ.﴾ (التوبہ ۸۴۔۸۵)
’’اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے اور آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد بھلے معلوم نہ ہوں ، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں ان کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں ۔‘‘ (اخرجہ البخاری واحمد والنسائی والترمذی وابن ماجہ وغیرھہم)
٭ اسی طرح کچھ سچے مومن غزوہِ تبوک سے پیچھے رہ گئے، وہ مدینہ میں ہی رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی معقول عذر بھی پیش نہ کر سکے۔ یہاں تک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے قطع تعلقی کی وجہ سے اپنی زندگی سے تنگ آگئے تو قرآن نے ان کی