کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 172
ہونے لگے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس وقت تک نماز کے قریب نہ جائیں ۔ پھر اس کے بعد یہ فرمان نازل ہوا:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ. اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ.﴾ (المائدہ: ۹۰۔۹۱)
’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب، جوا، بت اور فال نکالنے والے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے ہٹا دے کیا تم باز آجاؤ گے؟‘‘
چناں چہ اس آیت میں تمام اوقات میں شراب پینا حرام کر دیا گیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت میں اس حکمت وضاحت ہوتی ہے، فرماتی ہیں : شروع شروع میں ایک مفصل سورت نازل ہوئی جس میں جنت اور جہنم کا تذکرہ کیا گیا۔ پھر جب لوگ اسلام کی طرف آئے تو حلال وحرام اشیاء کو بیان کیا گیا اور اگر سب سے پہلے یہ حکم نازل ہوتا کہ ’’لَا تَشْرَبُو الْخَمْرَ‘‘ تم شراب مت پیو، تو لوگ کہتے ہم شراب نہیں چھوڑ سکتے اور اگر یہ حکم نازل ہوتا ’’لَا تَزْنُوا‘‘ تم زنا نہ کرو، تو لوگ کہتے ہم زنا نہیں چھوڑ سکتے۔ (اخرجہ البخاری)
٭ حادثات وواقعات کے مطابق امت کی تربیت بتدریج ہوتی رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم ان کی گردنیں اتار دیتے ہیں جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ ان سے فدیہ قبول فرما کر انہیں رہا کر دیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو قبول کیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا:
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ. لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ