کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 171
﴿وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.﴾ (النحل: ۶۷)
’’کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم نشہ اور بہترین رزق حاصل کرتے ہو، یقینا اس میں سمجھ دار لوگوں کے لیے نشانی ہے۔‘‘
اس جگہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا گو اس میں نشہ سے مراد خمر (شراب) ہے اور رزق سے ان دونوں درختوں سے حاصل ہونے والا پھل انگور اور کھجور ہے۔
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے رزق کو حسن (بہترین) کہا ہے، خمر کو نہیں تاکہ انہیں احساس ہو کہ صرف رزق کی تعریف کی گئی ہے شراب کی نہیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا۔
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا﴾ (البقرہ: ۲۱۹)
’’یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں ۔ آپ فرما دیجیے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ اور لوگوں کے لیے فائدے (دونوں چیزیں ) ہیں ، لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔‘‘
اس آیت میں شراب سے حاصل ہونے والے فائدے مثلاً فرحت وسرور، مستی اور تجارت کے ساتھ حاصل ہونے والے منافع کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ہی اس کے نقصانات مثلاً جسمانی نقصان، عقل کاجاتے رہنا، مال کا ضیاع اور ایسے عوامل کا تذکرہ کر دیا جو نافرمانی اور فسق وفجور کا باعث بنتے ہیں ۔ اسی لیے اس آیت میں اس کے نقصانات کو منافع پر ترجیح دے کر اس سے نفرت دلائی گئی۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی﴾ (النساء: ۴۳)
’’اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ۔‘‘
اس آیت میں شراب کو ان اوقات میں پینا منع کر دیا گیا جن کی وجہ سے نماز کے وقت نشہ ختم نہ ہو سکے، یعنی انہیں حالت نشہ میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا کہ جب تک انہیں یہ علم نہ