کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 167
لیے اس کی آیات کی تلاوت کرتا، ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ﴾ (الاعراف: ۱۵۷) چناں چہ اگر قرآن ایک ہی دفعہ نازل ہوتا تو ایک اَن پڑھ قوم کے لیے اسے یاد کرنا، اس کے معانی کو سمجھنا اور اس کی آیات میں غوروفکر آسان نہیں تھا۔ اس لیے قرآن کا قسط وار نزول قرآن کے ان کے سینوں میں محفوظ ہونے اور اس کی آیات کے فہم میں بہترین معاون ثابت ہوا۔ جب بھی کوئی آیت یا چند آیات نازل ہوتیں تو صحابہ انہیں یاد کر لیتے۔ ان کے معانی سمجھ لیتے اور ان کے احکامات سے واقفیت حاصل کر لیتے اور تعلیم وتعلم کا یہی سلسلہ تابعین کی زندگیوں تک جاری رہا۔ ابو نضرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیدنا ابوسعید الخدری رحمہ اللہ ہمیں قرآن کی پانچ آیات صبح اور پانچ آیات شام کو سکھایا کرتے تھے اور وہ بتاتے تھے کہ جبریل علیہ السلام قرآن کی پانچ پانچ آیات لے کر آیا کرتے تھے۔‘‘ (اخرجہ ابن عساکر) خالد بن دینار کہتے ہیں ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے ہم سے فرمایا: ’’قرآن کو پانچ پانچ آیتیں کر کے سیکھو، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام سے پانچ پانچ آیات یاد کیا کرتے تھے۔‘‘ (اخرجہ البیہقی) اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’قرآن کی پانچ پانچ آیتیں سیکھا کرو، کیوں کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی پانچ پانچ آیات لے کر نازل ہوا کرتے تھے۔‘‘ (اخرجہ البیہقی فی شعب الایمان) چوتھی حکمت: حالات وواقعات کے ساتھ مطابقت اور تدریجی قانون سازی: قرآن کریم اگر خوش اسلوبی کے ساتھ لوگوں کا علاج نہ کرتا اور ان کی بری عادات دور کرنے کے لیے انہیں کوئی مناسب دوا نہ دیتا تو یہ سب ہٹ دھرم لوگ آسانی سے اس نئے دین کی بالادستی کو قبول نہ کرتے۔ جب بھی ان کے درمیان کوئی واقعہ پیش آتا تو قرآن ان کے لیے روزِ روشن کی