کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 165
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن کو قسط وار نازل کرنے میں کیا حکمت ہے؟ تمام کتابوں کی طرح یہ ایک ہی بار کیوں نازل ہوا؟ تو ہم کہیں گے اس سوال کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً﴾ (الفرقان: ۳۲)
یعنی کافروں نے کہا جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں نازل ہوئیں اس طرح کیوں نہ اترا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا
﴿کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا.﴾ (الفرقان: ۳۲)
یعنی ہمارا اس کو جدا جدا نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا دل مضبوط ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے جب ہر حادثہ کے لیے نئی وحی نازل ہوتی تو یہ دل کو مضبوط کرنے کا بہترین سبب بنتی اور اس سے پتا چلتا کہ رسول علیہ السلام پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔
نیز اس سے فرشتے کا بار بار آنا لازم آتا اور اللہ نے اپنے رسول علیہ السلام کو جو رسالت کی ذمہ داری سونپی تھی اس کی تجدید ہوتی رہتی، اس سے آپ کو وہ خوشی نصیب ہوتی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تو آپ خوشی کی وجہ سے بہت زیادہ سخاوت کرتے۔
دوسری حکمت: چیلنج اور اعجاز:
مشرکین سرکشی میں بہت آگے بڑھ گئے اور نافرمانی کی حدیں پار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو آزمانے کے لیے آپ سے چیلنج اور اعجاز کے سوال کرتے اور طرح طرح کے عجیب وغریب وغریب مطالبات آپ کے سامنے رکھتے مثلاً: قیامت کا علم ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ﴾ (الاعراف: ۱۸۷) کبھی یہ کہتے کہ جلدی سے عذاب لے آؤ۔ ﴿وَ یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ﴾ (الحج: ۴۷) چناں چہ قرآن ان کے لیے واضح پیغام لے کر نازل ہوتا اور ان کے سوالوں کا تسلی بخش جواب دے دیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا.﴾ (الفرقان: ۳۳)