کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 163
’’آپ بھی (ویسے ہی) صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تکذیب کرنے والوں کے معاملے میں خود ہی کافی ہو جانے کی ضمانت دی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مطمئن ہو گیا، فرمایا: ﴿وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا. وَذَرْنِی وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا.﴾ (المزمل: ۱۰۔۱۱) ’’اور جو کچھ وہ کہیں آپ اس پر صبر کریں اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ ہو جائیں ۔ مجھے اور ان جھٹلانے والے مال دار لوگوں کو چھوڑ دیں اور انہیں ذرا سی مہلت دیں ۔‘‘ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کرنے میں بھی یہی حکمت ہے: ﴿وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ﴾ (ہود: ۱۲۰) ’’اور ہم نے رسولوں کے واقعات میں سے آپ کے دل کو مضبوط کرنے والے تمام واقعات بیان کر دیے ہیں ۔‘‘ جب بھی قوم کے جھٹلانے کی وجہ سے آپ کی تکلیف میں اضافہ ہوتا اور ان کی ایذاء کی وجہ سے آپ پریشان ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد اور تسلی کے لیے قرآن نازل فرماتے، اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کو دھمکی دیتے کہ وہ ان کے احوال کو جانتا ہے اور عنقریب وہ ان کے کرتوتوں کی انہیں سزا دے گا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ اِِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ.﴾ (یس: ۷۶) ’’آپ ان کی باتوں سے پریشان نہ ہوں ہم ان کی چھپی اور ظاہری تمام باتوں کو جانتے ہیں ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَ لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.﴾ (یونس: ۶۵)