کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 161
احادیث صحیحہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ضرورت کے مطابق، دس، پندرہ یا اس سے کم وبیش آیات کے ساتھ نازل ہوتا تھا، نیز واقعہ افک کے بارے دس آیات کا ایک ہی دفعہ نزول بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح سورۃ المومنین کی ابتدائی دس آیات بھی ایک ہی دفعہ نازل ہوئیں جب کہ غیر اولی الضرر کے الفاظ اکیلے ہی نازل ہوئے جو کہ ایک آیت کا ٹکڑا ہیں ۔[1] قرآن کریم کے قسط وار نزول کی حکمت ہم کوشش کریں گے کہ ذیل میں نصوص سے ثابت قرآن کریم کے قسط وار نزول کی حکمتیں بیان کریں ۔ پہلی حکمت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو دعوت دینا شروع کی تو آپ کو ان کی نفرت اور سنگ دلی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ایسی قوم آپ کے پیچھے پڑ گئی جن کی فطرت میں سخت مزاجی رچی بسی تھی اور دشمنی ان کی جبلت میں شامل تھی، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح کی تکلیف اور پریشانی سے دوچار کیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تہ دل سے بھلائی کی دعوت دینا چاہتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا.﴾ (الکہف: ۶) ’’پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ اسی رنج میں ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے؟‘‘ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی تھوڑی تھوڑی مدت کے وقفے سے نازل ہوتی تھی تاکہ آپ کا دل حق پر مضبوط رہے، اپنی دعوت کے منہح میں پر عزم ہو کر آگے بڑھتے رہیں اور قوم کی طرف سے آپ کی طرف بڑھنے والی جہالت کی تاریکیوں کی پروا نہ کریں ، کیوں کہ یہ تو موسم گرما
[1] اس عبارت کو امام سیوطی نے مکی بن ابی طالب کی کتاب ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ سے نقل کیا ہے۔ دیکھئے: الاتقان: ۴۲/۱۔