کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 158
سے حق کے ساتھ اتارا ہے، تاکہ وہ اس کے ساتھ ایمان والوں کو ثابت رکھے اور (یہ قرآن) مسلمانوں کے لیے ہدایت اور خوش خبری ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ﴿تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ.﴾ (الجاثیۃ: ۲) ’’یہ قرآن اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل شدہ ہے۔‘‘ ایک مقام پر فرمایا: ﴿وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّن مِّثْلِہٖ﴾ (البقرہ: ۲۳) ’’اور اگر تم ہماری نازل کی ہوئی چیز کے بارے شک میں ہو تو اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔‘‘ ایک جگہ اس طرح فرمایا: ﴿قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْن.﴾ (البقرہ: ۹۷) ’’آپ فرما دیں کہ جبریل علیہ السلام کا دشمن کون ہے۔ اس نے تو اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اسے اتارا ہے (اور یہ قرآن) اپنے سے پہلی (کتابوں ) کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کے لیے ہدایت وبشارت ہے۔‘‘ یہ آیات وضاحت کرتی ہیں کہ قرآن عربی الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جبریل علیہ السلام نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر اتارا اور یہ نزول اس کے آسمان دنیا پر نزول کے علاوہ ہے۔ چناں چہ اس سے قسط وار نزول مراد ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں لفظ انزال کی بجائے تنزیل استعمال ہوا ہے، جس سے بتدریج اور قسط وار نازل ہونا مراد ہے۔ کیوں کہ علماء لغت انزال اور تنزیل میں یہ فرق بیان کرتے ہیں کہ تنزیل جدا جدا نازل کرنے کو کہا جاتا ہے جب کہ انزال ہر طرح کے نزول کو کہتے ہیں ۔ قرآن کریم 23سالوں میں قسط وار نازل ہوا جن میں ۱۳ سال مکہ اور ۱۰ سال مدینہ کے