کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 156
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مذہب کے مخالف نہیں رہتا۔[1]
راحج مذہب یہی ہے کہ قرآن کریم دو طرح نازل ہوا۔
۱۔ مکمل طور پر ایک ہی مرتبہ لیلۃ القدر میں آسمان دنیا پر بیت العزت میں نزول۔
۲۔ امام قرطبی نے مقاتل بن حیان سے اجماع نقل کیا ہے کہ قرآن کریم لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر بیت العزت میں ایک ہی مرتبہ مکمل نازل ہوا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ان تینوں آیات میں نزولِ قرآن کے ذکر اور عملی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ۲۳ سالوں میں نزول قرآن کے بارے مروی موقف میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عطیہ بن اسود نے مجھ سے کہا: اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَ الْفُرْقَانِ﴾ (البقرہ: ۱۸۵)
اور آیت :
﴿اِِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ.﴾ (القدر: ۱)
نے میرے دل میں شک پیدا کر دیا ہے، کیوں کہ قرآن تو شوال، ذوالعقدہ، ذوالحجۃ، محرم، صفر، ربیع الاول (تمام مہینوں ) میں نازل ہوتا رہا ہے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قرآن ایک ہی مرتبہ مکمل حالت میں قدر کی رات (بیت العزت میں ) نازل ہوا، پھر آہستہ آہستہ حالات وواقعات کے مطابق ماہ وایام میں نازل ہوتا رہا۔ (اخرجہ ابن مردویہ والبیہقی فی الاسماء والصفات)
بعض علماء نے اشارہ کیا ہے کہ اس طرح نزول میں حکمت یہ تھی کہ قرآن کی شان وعظمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف کو بیان کیا جائے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک ہی مرتبہ آسمان دنیا پر نازل فرمانے کا راز یہ ہے کہ قرآن اور صاحب قرآن کی عظمت کو ظاہر کیا جائے۔ اس طرح ساتوں آسمانوں کے باسیوں کو یہ اطلاع دی گئی کہ یہ آخری کتاب ہے جو خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر بہترین امت کی رہنمائی کے نازل کی گئی ہے، ہم نے اسے تمہارے قریب کر دیا تاکہ ان پر نازل کی جائے۔ اگر حکمتِ الہٰیہ کا تقاضا یہ نہ ہو تاکہ اسے حالات وواقعات کے مطابق
[1] اس بارے راجح مذہب وہی ہے جسے حبرالامہ، مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رحمہ اللہ نے اپنایا ہے۔ (ع۔م)