کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 154
﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّ نَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا.﴾ (الاسراء: ۱۰۶)
اور مشرکین کے جھگڑا کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ سابقہ آسمانی کتابیں ایک ہی مرتبہ مکمل حالت میں نازل ہوئی تھیں ۔ اللہ فرماتے ہیں :
﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا. وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا.﴾ (الفرقان: ۳۲۔۳۳)
’’اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن سارے کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا، اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا کر کے) اتارا، تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں ، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ کر سنایا ہے۔ یہ آپ کے پاس جو مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے۔‘‘
اور جب تک یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ ان تینوں آیات میں نزولِ قرآن سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونا ہے تو اس وقت تک ماہ رمضان کی لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارکۃ کی عظمت شان کسی بھی آدمی پر آشکار نہیں ہوگی۔ اس طرح غزوہِ بدر کے بارے نازل ہونے والی آیات کے ساتھ بھی موافقت ہوتی ہے:
﴿وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.﴾ (الانفال: ۴۱)
’’اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن نازل کیا، جس دن دو جماعتیں ملی تھیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
اور غزوہِ بدر رمضان میں پیش آیا تھا۔
نیز وحی کی ابتدا کے بارے آنے والی حدیث کے بارے محققین نے جو موقف اپنایا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں کی صورت میں