کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 153
﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا.﴾ (الفرقان: ۳۳) ’’وہ آپ کے پاس جو مثال بھی لائیں گے، ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے۔‘‘ اور اس آیت کی تلاوت بھی کی: ﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّ نَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا﴾ (الاسراء: ۱۰۶) اور ہم نے قرآن کو الگ الگ کر دیا ہے تاکہ آپ ٹھہر ٹھہر کر لوگوں پر تلاوت کر سکیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے۔‘‘ (رواہ الحاکم والبیہقی والنسائی) ۲۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قرآن کریم کو ذکر سے الگ کر کے آسمان دنیا پر بیت العزت میں رکھ دیا گیا، پھر جبریل علیہ السلام اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آتے رہے۔ (رواہ الحاکم) ۳۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ قرآن ایک ہی مرتبہ مکمل حالت میں آسمان دنیا پر اتارا گیا جوکہ مواقع النجوم ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تسلسل کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ (رواہ الحاکم والبیہقی) ۴۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’قرآن کریم ماہ رمضان میں قدر کی رات مکمل حالت میں آسمانِ دنیا پر اتارا گیا، پھر (نبی علیہ السلام پر) قسط وار اس کا نزول ہوا۔ (رواہ الطبرانی) دوسرا مذہب:… اس کے قائل امام شعبی رحمہ اللہ ہیں [1] فرماتے ہیں : ان تینوں آیات میں نزولِ قرآن سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول کی ابتداء ہے اور اس نزول کی ابتداء ماہ رمضان کی لیلۃ القدر میں ہوئی اور یہی لیلۃ المبارکہ ہے، پھر تقریباً 23سالوں تک حالات وواقعات کے مطابق بتدریج اس کا نزول ہوتا رہا کیوں کہ قرآن کا نزول صرف ایک ہی مرتبہ ہوا اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قسط وار نازل ہونا اور قرآن نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
[1] ان کا نام عامر بن شراحیل ہے، ان کا شمار کبار تابعین میں ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ کے استاد ہیں اور حدیث وفقہ کے امام مانے جاتے ہیں ، 109 ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔