کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 152
﴿اِِنَّآ اَنزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ.﴾ (القدر: ۱) ’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قدر کی رات میں نازل فرمایا۔‘‘ ایک اور جگہ ہے: ﴿اِِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبٰرَکَۃٍ﴾ (الدخان: ۳) ’’ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیا۔‘‘ ان تینوں آیات میں کوئی تعارض نہیں ۔ ماہ رمضان کی لیلۃ القدر ہی بابرکت رات ہے۔ ان آیات کا تعارض تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عملی نزول سے ہوتا ہے، کیوں کہ قرآن کریم آپ پر 23 سالوں میں نازل ہوا۔ چناں چہ اس بارے اہل علم کے تین مذاہب ہیں : پہلا مذہب:… اس کے قائل سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور جمہور علماء ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ان تین آیات سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم اپنی عزت واہمیت کے لحاظ سے ایک ہی مرتبہ مکمل حالت میں آسمانِ دنیا میں بیت العزۃ میں فرشتوں کے پاس اتارا گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر آپ کی وفات تک حالات وواقعات کے مطابق 23سالوں میں ہمارے رسول محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا، کیوں کہ بعثتکسے بعد آپ تیرہ سال مکہ اور دس سال مدینہ میں رہے۔ ۱۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ چالیس سال کی عمر میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، اس کے بعد آپ تیرہ برس مکہ میں رہے، آپ پر وحی نازل ہوتی رہی پھر آپ کو ہجرت کرنے کا حکم ملا، ہجرت کے بعد دس سال مدینہ میں رہے اور 63 برس کی عمر میں آپ اس دنیا سے کوچ کر گئے۔(رواہ البخاری) اس مذہب کے بارے سیدنا عبداللہ عباس رضی اللہ عنہ سے کئی آثارِ صحیحہ منقول ہیں : (۱) …عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’قرآن ایک ہی مرتبہ مکمل حالت میں قدر کی رات کی آسمانِ دنیا پر اتارا گیا، اس کے بعد بیس برس میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر) نازل ہوا پھر انہوں نے ان آیات کی تلاوت کی: