کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 148
میں اونٹوں ، پہاڑوں اور آسمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس میں انس وعادت کاخیال رکھا گیا ہے، کیوں کہ اس آیت کے مخاطب بدوی لوگ تھے، وہ ان چیزوں سے مانوس تھے، اونٹوں پر ان کی گزر بسر تھی، اس لیے ان کی توجہ اونٹوں کی طرف مبذول کرائی گئی، اونٹ چرتے ہیں ، جب کہ پانی (بارش) برستے وقت بھی ایسا ہوتا ہے ان کی نظریں آسمان کی طرف اٹھتی ہیں ۔ اسی طرح بارش کے وقت انہیں محفوظ پناہ گاہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور پہاڑوں سے زیادہ محفوظ کون سی جگہ ہو سکتی؟ نیز ان خانہ بدوش لوگوں کو گھاس کی ضرورت ہوتی، اس لیے وہ ایک جگہ سے کوچ کر کے دوسری جگہ چلے جاتے تھے، خشک علاقوں کو چھوڑ کر سرسبز علاقوں کی طرف چلے جاتے، چناں چہ جب بدوی لوگوں نے ان آیات کو سنا تو ان کی رگ رگ میں سرایت کر گئیں کیوں کہ یہ ساری چیزیں ان کے ذہنوں میں موجود تھیں اور کبھی بھی ان کے ذہن اس چیزوں سے خالی نہیں ہوتے تھے۔ کبھی ایک سورت کی دوسری سورت سے مناسبت ہوتی ہے۔ مثلاً سورۃ الانعام اللہ کی حمد سے شروع ہو رہی ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ﴾ (الانعام: ۱) اور اس کی مناسبت سورۃ المائدہ کے اختتام سے ہو رہی ہے، جہاں انسانوں کے درمیان فیصلے اور ان کی جزاء وسزا کا ذکر ہے، فرمایا: ﴿اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ. لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا فِیْہِنَّ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.﴾ (المائدہ: ۱۱۸۔۱۲۰) اسی طرح سورت حدید کی ابتداء تسبیح سے ہو رہی ہے: ﴿سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.﴾ (الحدید: ۱)