کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 147
الشیخ عزالدین بن عبدالسلام[1] فرماتے ہیں : ’’مناسبت کا جاننا ایک اچھا علم ہے لیکن کلام کے ربط میں حسن پیدا کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کسی ایک معاملے کے بارے میں شروع سے آخر تک جڑا ہوا ہو لیکن اگر وہ مختلف اسباب کے بارے ہو تو اس میں شروع سے آخر تک باہمی ربط کی شرط نہیں ۔‘‘ وہ مزید فرماتے ہیں : ’’جو شخص مختلف اسباب والی آیات میں ربط پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ ایک ناکام کوشش ہوگی، نیز وہ ایسا غیر مناسب ربط پیدا کرے گا، جس سے ہر اچھی بات کو محفوظ رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ قرآن بیس سے زیادہ سالوں میں مختلف احکام لے کر نازل ہوا جن کے اسباب بھی مختلف تھے، اس طرح اس کا باہمی ربط ممکن نہیں۔ بعض علماء نے آیات، سورتوں اور جملوں کے درمیان مناسبت بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے ان کے باہمی ربط کے لیے بہت ہی عمدہ طریقوں کا استنباط کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں جملہ کبھی اپنے سے پہلے جملے کی تاکید ہوتا ہے، کبھی بیان، کبھی تفسیر اور کبھی معترضہ ہوتا ہے ، ان سب کی مثالیں قرآن میں کثرت سے ملتی ہیں ۔ باہمی ربط کی وجوہات میں سے کسی وجہ سے آیت کا اپنے سے پہلی والی آیت کے ساتھ تعلق ان دونوں کو جمع کر دیتا ہے۔ جیسے مومنین اور مشرکین کی صفات کا تقابل، مشرکین کے لیے وعید اور مومنین کے لیے وعدے، آیاتِ رحمت کے بعد آیاتِ عذاب کا تذکرہ، آیاتِ ترہیب کے بعد آیاتِ ترغیب اور اسی طرح کونی آیات کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید وتنزیہ کی آیات بیان کی جاتی ہیں ۔ کبھی مخاطبین کے احوال کا خیال رکھنے میں مناسبت ہوتی ہے، مثلاً آیات… ﴿اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِِلَی الْاِِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ. وَاِِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ. وَاِِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ. وَاِِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ. (الغاشیۃ:۱۷۔۲۰)
[1] ان کا نام عبدالعزیز بن عبدالسلام تھا اور عزالدین کے لقب سے مشہور تھے، یہ ایک مجاہد عالم تھے، ان کی وفات 660 ہجری میں ہوئی۔