کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 146
اس مناسبت کی معرفت سے قرآن کے معانی، قرآنی بلاغت کے اعجاز، اس کی کلام کے نظم اور عمدہ اسلوب کے ادراک کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ.﴾ (ہود: ۱)
’’الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کی آیات محکم کی گئی ہیں پھر ایک حکیم با خبر کی طرف سے صاف صاف بیان کی گئی ہیں ۔‘‘
امام زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی معرفت کی وجہ سے اس کلام کے اجزاء آپس میں ملے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے باہمی ربط مضبوط ہوتا ہے اور کتاب اس مضبوط عمارت کی طرح بن جاتی ہے جس کے اجزاء نہایت خوش اسلوبی سے ملائے گئے ہوں ۔‘‘
قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آیاتِ قرآنیہ کا باہمی ربط انہیں ایک ایسے کلمہ کی شکل دیتا ہے جس کے معانی واضح اور الفاظ منظم ہوں اور یہ ایک عظیم علم ہے۔‘‘
آیات کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط کوئی ’’توقیفی‘‘ معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس کا دارومدار مفسر کی کوشش ومحنت، اعجازِ قرآنی سے اس کی دلچسپی، بلاغت قرآنی کے اسرار اور منفرد طرز بیان کے اسباب سے واقفیت پر ہوتا ہے۔ چناں چہ جب مناسبت میں معانی کی باریکیاں ، اسلوبِ بیان میں باہمی ربط اور علوم عربیہ کے لغوی اصولوں کی موافقت پائی جائے تو یہ بہت ہی لطیف اور پسندیدہ ہوگی۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مفسر ہر آیت کی مناسبت تلاش کرتا پھرے، کیوں کہ قرآن حادثات وواقعات کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ مفسر کو کسی وقت قرآنی آیات کا باہمی ربط مل جائے اور کبھی نہ مل سکے۔ چناں چہ مناسبت ایسی ہو جو مناسب لگے اور بے ربط نہ ہو، ورنہ یہ ایک ناپسندیدہ تکلف ہی ہوگا۔