کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 145
سبب نزول کے بارے پتا چل جانے کے بعد طلبہ کے ذہنوں میں ایک عمومی تصور آجائے گا جس میں جوش وخروش سے معمور قصے کے تمام عناصر موجود ہوں گے، اور ان کے دلوں میں آیات کے بارے واقفیت حاصل کرنے کا شوق زیادہ ہو جائے گا، نیز احکام کی تفصیل اور قانونی شقوں سے واقفیت کے لیے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوگا ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی بدولت انسانیت کو زندگی کے اس بہترین منہج اور سیدھے راستے کی رہنمائی ملتی ہے جو عزت وعظمت اور سعادت کا راستہ ہے۔ تربیت کرنے والے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ تعلیم وتربیت کے میدان میں ، جس کا تعلق طلبہ کی خاص جماعت سے ہے یا پھر عوام کی رہنمائی سے، تو وہ ان لوگوں میں سے رشدوہدایت کی تڑپ رکھنے کے لیے اسبابِ نزول سے روشناس کرائیں تاکہ بات ان کے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹھ جائے کیوں کہ تربیتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ بہت ہی مناسب اور نفع بخش اسلوب ہے۔ آیات اور سورتوں کے درمیان مناسبت: جس طرح شانِ نزول کی معرفت سے آیت کا معنی اور تفسیر سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اسی طرح آیات کی باہمی مناسبت، بہترین تاویل اور معاملہ فہمی میں معاون ثابت ہوتی ہے، اسی لیے بعض علماء نے اپنی تصانیف میں اس مبحث کو بھی خاص طور پر ذکر کیا ہے۔[1] مناسبت کا لغوی مطلب: مناسبت کا لغوی معنی ہے ’’مقاربت۔‘‘ کہا جاتا ہے ’’فلانٌ یُناسِبُ فلانًا‘‘ یعنی فلاں شخص کو فلاں قربت اور ہم آہنگی ہے، اسی سے ہی وہ مناسب ہوتی ہے جو قیاس کے معاملے میں علت کے طور پر ہو ،جو کہ وہ وصف ہوتا ہے جو حکم سے مناسبت رکھتا ہو۔ لیکن یہاں مناسبت سے مراد وہ وجہ ہے جو ایک آیت کے ہر جملہ یا ایک کے دوسری آیت کے ساتھ تعلق میں پائی جاتی ہے۔
[1] اس موضوع پر حافظ ابوجعفر ابن ابراہیم بن زبیر الاندلسی النحوی (المتوفی ۸۰۷ ہجری) کی کتاب ’’البرہان فی مناسبۃ ترتیب سور القرآن‘‘ اور الشیخ برہان الدین البقاعی کی کتاب ’’نظم الددرفی تناسب الآیات والسور‘‘ جس کا قلمی نسخہ دارالکتب مصریہ میں موجود ہے، معروف کتابیں ہیں ۔