کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 143
قرآن نازل ہوا، تو قرآن حکیم کا اس بارے متعدد دفعہ نازل ہونا اسے پیش آنے والے کئی حادثات کی وجہ سے تھا۔ اس کی مثال امام بخاری کی وہ روایت ہے جو انہوں نے ’’الادب المفرد‘‘ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارے بیان کی ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میرے متعلق کتاب اللہ کی چار آیات نازل ہوئیں : ۱۔ میری ماں نے قسم اٹھا لی کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑو گے، میں کچھ نہیں کھاؤں پیئوں گی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَ اِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْمَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا﴾ (لقمان: ۱۵) اگر وہ دونوں (یعنی والدین) تمہیں میرے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ ماننا، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا۔ ۲۔ میں نے (مالِ غنیمت سے) ایک تلوار پکڑی جو مجھے بہت پسند آئی، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں ، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ. (الانفال: ۱) ۳۔ ایک دفعہ میں بیمار ہوگیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں ، تو کیا میں نصف مال کی (اللہ کے رستے میں ) وصیت کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، میں نے کہا: تیسرے حصے کی؟ تو آپ خاموش ہوگئے، اس کے بعد تیسرے حصے وصیت کرنا جائز ہوگیا۔[1]
[1] وصیت کے بارے یہ آیت نازل ہوئی تھی ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْن.﴾ (البقرہ: ۱۸۰) لیکن کسی حدیث میں اس آیت کے نزول کی صراحت نہیں آئی۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نازل ہونے سے پہلے دیا گیا تھا، اب یہ منسوخ ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر احسن البیان، تفسیر سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۰۔ (ع،م)