کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 142
((اُحِلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نّھَارٍ۔))[1] ’’اس مکہ کو میرے لیے دن کی ایک گھڑی میں حلال کیا گیا۔‘‘ اسی طرح مکہ میں سورۃ القمر کی آیت نازل ہوئی: ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ .﴾ (آیت: ۴۵) ’’عنقریب یہ سب لشکر شکست کھائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نہیں جانتا تھا کہ کون سے لشکر شکست کھائیں گے؟ چناں چہ جب بدر کا دن تھا تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ .﴾ (آیت: ۴۵) آپ نے دیکھا کہ صاحب برہان (امام زرکشی) نے شان نزول کے لیے ایسے کلمات استعمال کیے ہیں جن میں سب کا احتمال ہے اور آیت بھی احکام کو شامل ہونے میں احتمال رکھتی ہے۔ یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وہ روایت جو امام بیہقی نے بیان کی کہ آیت ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی.﴾ (الاعلیٰ: ۱۴) رمضان کی زکوٰۃ کے بارے نازل ہوئی۔ اور جو انہوں نے دوسری آیات بیان کی ہیں وہ یا تو محمل ہیں کہ ان میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال ہے یا پھر ان میں ایسے کلمات استعمال کیے گئے ہیں جن میں آنے والے وقت کے بارے خبر دی گئی ہے۔ جیسے آیت ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ .﴾ (آیت: ۴۵) ہے۔ ایک شخص کے بارے نازل ہونے والی متعدد آیات: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک شخص کو کئی حادثات پیش آئے اور ہر حادثہ کے پیش نظر
[1] یہ الفاظ صحیحین کی ایک روایت کا حصہ ہیں اور سورۃ البلد کی آیت میں تین معانی کا احتمال ہے: ۱۔ حِلُّ:… الحلول مصدر سے ہے جس کا مطلب ہے کسی جگہ پڑاؤ یا رہائش کرنا، تو اس کا مطلب ہوگا آپ مقیم ہیں ۔ ۲۔ حِلٌّ:… الحلال مصدر سے ہے جس کا مطلب ہے مباح ہونا یعنی اہل مکہ نے آپ کو اس حرمت والے شہر میں ستایا، تنگ کیا اور آپ کو ایذاء پہنچائی۔ ۳۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مستقبل میں اسے اپنے حلال کریں گے۔ لہٰذا اس آخری معنی کی بناء پر یہ آیت حکم سے پہلے نازل ہوئی ہے۔