کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 141
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: ﴿اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ ……﴾ (الاحزاب: ۳۵) اس طرح ان آیات کے نزول کا سبب ایک ہی ہے۔
آیت کا حکم سے پہلے نازل ہونا:
امام زرکشی رحمہ اللہ اسبابِ نزول سے ملتی جلتی ایک نوع کا تذکرہ کرتے ہیں جسے وہ ’’تَقَدُّمَ نُزُوْلِ الْآیَۃِ عَلَی الْحُکْمِ ‘‘کا نام دیتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ جو مثال پیش کرتے ہیں اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیت تو کسی خاص حکم میں نازل ہوئی مگر اس پر عمل تاخیر سے ہوا ہو، بلکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت ایسے الفاظ کے ساتھ نازل ہوئی جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال تھا۔ چناں چہ اس آیت کو خاص معنی پر محمول کر لیا گیا تو اس طرح وہ ایک متاخر حکم کی دلیل بن گئی۔
ان کی کتاب ’’البرہان‘‘ کے الفاظ ہیں :
واعلم انہ قد یکون النزول سابقاً علیٰ الحکم وھذا کقولہ تعالیٰ:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی.﴾ (الاعلیٰ: ۱۴)
امام زرکشی اسے صدقہ فطر کی دلیل بناتے ہیں کہ امام بیہقی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ’’رمضان کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) کے بارے نازل ہوئی تھی، پھر اس طرح کی ایک اور مرفوع روایت بھی بیان کی ہے۔
بعض علماء کہتے ہیں : اس تاویل کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی، کیوں کہ سورۃ الاعلیٰ مکی ہے جب کہ مکہ میں عید اور رمضان کی زکوٰۃ کا تصور ہی نہیں تھا۔
امام بغوی رحمہ اللہ [1]اس کا جواب یہ دیتے ہیں آیت حکم سے پہلے نازل ہو سکتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ. وَاَنْتَ حِلٌّ م بِہٰذَا الْبَلَدِ﴾ (البلد: ۱۔۲)
یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا اثر فتح مکہ کے دن ظاہر ہوا تھا۔ جب آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا:
[1] یہ ابو محمد الحسن بن مسعود بن محمد البغوی ہیں ، شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک نامور فقیہ ہیں ، انہوں نے حدیث میں ’’مصابیح السنۃ‘‘ اور تفسیر میں ’’معالم التنزیل‘‘ لکھی، ۵۱۰ ہجرت میں ان کی وفات ہوئی۔