کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 138
ایسی ہی ایک مثال سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ (کی لاش) کے پاس کھڑے ہیں ، آپ نے فرمایا: میں آپ کے بدلے ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی وہیں کھڑے تھے کہ جبریل علیہ السلام سورۃ النحل کی آخری آیات:
﴿وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ. وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ. اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ.﴾ (النحل: ۱۲۶۔۱۲۸)
لے کر نازل ہوئے (اخرجہ البیھقی والبزاز عن ابی ہریرۃ) چناں چہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیات احد کے دن نازل ہوئی تھیں ۔
جب کہ دیگر روایات میں آتا ہے کہ یہ آیات فتح مکہ کے دن اتری تھیں نیز یہ سورت بھی مکی ہے تو اس میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ یہ آیات ہجرت سے پہلے مکہ میں سورت کے ساتھ نازل ہوئیں ، پھر احد کے دن اور پھر فتح مکہ کے دن اور ایسا تسلیم کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں کیوں کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کے ذریعے نصیحت اور اپنی شریعت کی یاد دہانی کراتے ہیں ۔
امام زرکشی ’’البرہان‘‘ میں کہتے ہیں :
کبھی کوئی ایک آیت اپنی عظمت، شانِ نزول کی یاد دہانی اور بھول جانے کے ڈر کی وجہ دو دفعہ نازل ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ سورت فاتحہ کے بارے کہا جاتا ہے یہ دو دفعہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو علماءِ فن نے شانِ نزول کے تعدد اور تکرار کے بارے کہی ہیں ۔ میرے (مناع القطان کے) خیال میں یہ معقول توجیہات نہیں ہیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شانِ نزول کے بارے میں جب متعدد روایات آتی ہوں اور ان میں تطبیق کی بھی کوئی سورت نہ نکلتی ہو تو ان میں سے زیادہ مناسب بات کو ترجیح دی جائے گی، مثلاً آیت: