کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 137
اس کی مثال صحیح بخاری ومسلم کی وہ روایت جسے مسیب بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، جب کہ آپ سے پہلے اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابوامیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چچا جان! لا الٰہ الا اللّٰہ کہہ دیجیے جس کی وجہ سے میں اللہ کے ہاں احتجاج کر سکوں ، اس پر ابوجہل اور عبداللہ کہنے لگے: ابو طالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دو گے۔ وہ دونوں ابوطالب سے یہی کہتے رہے یہاں تک کہ ابوطالب نے کہا: میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک مجھے منع نہ کیا گیا میں آپ کے لیے ضرور استغفار کرتا رہوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ.﴾ (التوبۃ: ۱۱۳)
نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اہل ایمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں ۔ جب کہ امام ترمذی نے روایت بیان کی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے دعا کرتے ہوئے سنا، تو میں نے کہا: تم اپنے مشرک والدین کے لیے بخشش کی دعا کر رہے ہو؟ تو اس نے کہا: ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے دعا کی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
مستدرک حاکم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن قبرستان گئے، وہاں آپ ایک قبر پر بیٹھ گئے، آپ نے کافی دیر تک اپنے رب سے سرگوشیاں کیں پھر آپ رونے لگے، پھر فرمایا: جس قبر پر میں بیٹھا تھا وہ میری ماں کی قبر تھی، اور میں نے اپنے رب سے ان کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی تھی لیکن مجھے اجازت نہیں ملی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ.﴾ (التوبہ: ۱۱۳)
چناں چہ ان تمام روایات کو تعددِ نزول پر جمع کیا جا سکتا ہے۔