کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 136
چناں چہ ہمارا ابن مسعود کی روایت کو ابن عباس کی روایت پر ترجیح دینا تکرار پر محمول کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ آیت مکی ہے اور ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی تھی تو پھر جب مدینہ میں آپ سے دوسری مرتبہ یہی سوال کیا گیا تو وہاں دوسری مرتبہ وحی کے نزول کا کیا مقصد؟ بلکہ آپ پہلے سے نازل شدہ وحی کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جواب دے سکتے تھے۔
۵۔ ترجیحی لحاظ سے بھی اگر روایات برابر ہوں تو ہوسکتا ہے کہ آیت کا نزول دو یا زیادہ اسباب کی وجہ سے ہو جن کا زمانہ قریب قریب تھا۔ جیسا کہ لعان کی آیات﴿وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ. وَیَدْرَاُ عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ. وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَا اِِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِیْنَ.﴾ (النور: ۶۔۹)ہیں ۔
امام بخاری، ترمذی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ آیت ہلال بن امیہ کے بارے نازل ہوئی تھی۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیوی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کیا ہے، جیسا کہ ہم اس بات کو پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔
جب کہ امام بخاری ومسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : عویمر نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھو جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو (زنا کرتے ہوئے) پاتا ہے، وہ اسے قتل کرتا ہے تو (قصاصاً) اسے قتل کر دیاجائے گا۔ لہٰذا ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟
ان دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ پہلے ہلال رضی اللہ عنہ کو یہ حادثہ پیش آیا، اس کے بعد عویمر کی (نبی علیہ السلام ) کے پاس آمد اتفاقاً ہوئی تو ان دونوں کو حادثات پیش آنے کے بعد یہ آیت دونوں کے بارے نازل ہوئی۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اسبابِ نزول کے متعدد ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
۶۔ اگر واقعات کے زمانہ میں فرق ہو پھر آیات کے نزول کو تعدد اور تکرار پر محمول کیا جائے گا۔