کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 135
مدینہ میں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، آپ نے کھجور کی ایک ٹہنی کا سہارا لیا ہوا تھا، آپ کا گزر یہودیوں کے کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا تو ان میں سے کسی ایک نے کہا: تم ان سے کوئی سوال کرو، پھر انہوں نے سوال کیا: کہ آپ ہمیں روح کے متعلق بتایئے، آپ کچھ دیر رکے، پھر اپنا سر اوپر اٹھایا میں سمجھ گیا کہ آپ کی طرف وحی ہو رہی ہے۔ چناں چہ جب وحی موقوف ہوگئی تو آپ نے اس آیت کی تلاوت کی: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.﴾ (الاسراء: ۸۵) جب کہ امام ترمذی ایک روایت بیان کرتے ہیں : اور اسے صحیح بھی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی سوال بتاؤ جو اس آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کریں تو یہودیوں نے کہا تم ان سے روح کے بارے پوچھو، انہوں نے آپ سے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط …﴾ نازل فرما دی۔ یہ روایت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ آیت مکی ہے کیوں کہ قریش مکہ میں تھے، جب کہ پہلی (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی) روایت کا مقتضیٰ یہ ہے یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی۔ لہٰذا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کے وقت موجود ہونے کی وجہ سے پہلی روایت کو ترجیح دی جائے گی، دوسری بات یہ ہے امت نے دوسری کتابوں کی صحیح روایات کے مقابلہ میں صحیح بخاری کی روایات کو قبول عام دیا ہے اور اس کی روایات کو راحج قرار دیا ہے۔ زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول میں تکرار ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت دو دفعہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ میں اور وہ اپنے اس قول کی تائید میں کہتے ہیں سورۃ سبحان الذی (الاسراء) مکی سورت ہے۔ (اور یہ آیات سورۃ الاسراء کی ہیں ) میرے (مناع القطان) کے خیال میں سورت کے مکی ہونے سے اس کی ایک آیت یا اکثر حصہ کے مدنی ہونے کی نفی نہیں ہوتی نیز امام بخاری نے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، اس میں واضح دلیل موجود ہے کہ آیت﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.﴾ (الاسراء: ۸۵) مدنی ہے۔