کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 134
اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿وَالضُّحٰی. وَالَّیْلِ اِِذَا سَجٰی. مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی.﴾ (الضحٰی: ۱۔۳) ’’قسم ہے چاشت کے وقت کی، اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے، نہ تو آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ بیزار ہوا ہے۔‘‘ جب کہ امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ ام حفص بنت مسیرہ کی لونڈی سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتی ہیں : ایک چھوٹا سا کتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آکر چارپائی کے نیچے گھس گیا اور مر گیا، چار دن گزر گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل نہ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خولہ! اللہ کے رسول کے گھر کیا ہو گیا ہے کہ جبریل میرے پاس نہیں آرہے؟ میں نے اپنے دل میں کہا: میں گھر کو صاف کر دیتی ہوں ، چناں چہ میں نے چھاڑو دیا، اس دوران میں جھاڑو لے کر چارپائی کے نیچے جھکی تو میں نے اس چھوٹے سے (مردہ) کتے کو نکالا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کی داڑھی مبارک کپکپی کی وجہ سے ہل رہی تھی، کیوں کہ جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ پر (اسی طرح) کپکپی طاری ہو جایا کرتی تھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿وَالضُّحٰی. وَالَّیْلِ اِِذَا سَجٰی. مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی. وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی. وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.﴾ (اضحیٰ: ۱۔۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں : کتے کے چھوٹے سے بجے کی وجہ سے جبریل علیہ السلام کے نہ آنے کا قصہ مشہور ہے۔ اس واقعہ کا ان آیات کا شانِ نزول ہونا بہت عجیب ہے، نیز اس روایت کی سند میں غیر معروف (مجہول) راوی بھی ہیں ، لہٰذا اسی روایت پر اعتماد کیا جائے گا جو صحیحین میں آئی ہے۔ (انظرالاتفان، ج۱، ص: ۳۲) ۴۔ جب روایات صحت کے لحاظ سے برابر ہوں لیکن کسی روایت کو ترجیح دینے کی وجہ موجود ہو ، یا ان میں سے کوئی ایک روایت زیادہ صحیح ہو تو راجح روایت کو مقدم رکھا جائے گا۔ اس کی مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :