کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 133
راوی نے کسی دوسرے مخالف سبب کے ذکر کی وضاحت کر دی ہو تو سب کی نص پر اعتماد کیا جائے گا اور پہلے راوی کے ذکر کردہ سبب کو آیت کے حکم میں داخل سمجھا جائے گا۔ اس کی مثال میں آیت:
﴿نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ﴾ (البقرہ: ۲۲۳)
کے بارے منقول روایات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں : ایک دن میں نے ﴿نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ﴾کی قراء ت کی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جانتے ہو یہ آیت کس بارے نازل ہوئی؟ میں نے کہا نہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا: یہ آیت عورتوں سے ان کی دیر میں وطی کرنے کے بارے اتری تھی۔(اخرجہ البخاری وغیرہ)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ سبب نزول کے بارے غیر واضح ہیں جب کہ اس کے مخالف جو سبب بیان کیا گیا ہے اس میں صراحت موجود ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہودی کہا کرتے تھے: جب آدمی اپنی بیوی کو الٹا کر کے اس کے قبل میں جماع کرے تو اس سے اولاد احول (بھینگی) پیدا ہوتی ہے۔ اس پر قرآن کی یہ آیت ﴿نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ……﴾ نازل ہوئی۔
(اخرجہ البخاری واھل السنن وغیرھم)
اس میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت پر اعتماد کیا جائے گا کیوں کہ ان کی کلام میں صراحت موجود ہے جو کہ شانِ نزول کے بیان کے لیے نص ہے، جب کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا کلام نص نہیں ہے۔ اس لیے ان کے قول کو اس آیت کی تفسیر میں مستنبط کیا جانے والا مسئلہ کہا جائے گا۔
۳۔ شانِ نزول کے بارے متعدد روایات آتی ہوں اور وہ سب کی سب شانِ نزول کے متعلق نص بھی ہوں ،لیکن ان میں سے ایک کی سند صحیح ہو دوسری روایات کی صحیح نہ ہو تو صحیح روایت پر ہی اعتماد کیا جائے گا مثلاً امام بخاری ومسلم رحمہم اللہ نے روایت کی ہے کہ سیدنا جندب البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے اس لیے آپ دو یا تین راتیں قیام نہ کر سکے تو ایک عورت آپ کے پاس آکر کہنے لگی: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے خیال میں تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور وہ دو یا تین راتوں سے تمہارے قریب نہیں آیا۔ اس پر