کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 132
مسند حدیث کے قائم مقام سمجھا جائے گا جیسے کہ اگر وہی صحابی اس بات کو ذکر کرنے والا ہو جس کے بارے اس کا نزول ہوا۔ یا پھر اسے تفسیر کے قائم مقام سمجھا جائے گا جو کہ مسند نہیں ہوتی۔ امام بخاری رحمہ اللہ اسے مسند میں داخل کرتے ہیں لیکن دیگر ائمہ کرام اسے مسند میں داخل نہیں کرتے اور اکثر مسانید اس اصطلاح کے مطابق ہیں جیسا کہ مسند احمد وغیرہ۔ لیکن جب اس سبب کو ذکر کیا جائے جس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی تو اس قسم کی روایت کو تمام ائمہ مسند میں داخل کرتے ہیں ۔ مسند ہونے کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہو خواہ صحابی کا ہی قول ہو، کیوں کہ اس بارے اجتہاد کے ساتھ کہنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ زرکشی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’البرہان‘‘ میں کہتے ہیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی عادت ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں ’’نزلت ھذہ الآیۃ فی کذا‘‘ تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کو شامل ہے یہ نہیں کہ یہ واقعہ اس کا شانِ نزول ہے، بلکہ آیت سے اس حکم پر استدلال ہوتا ہے اور مقصد یہ نہیں ہوتا کہ واقعہ کو اسی لیے نقل کیا گیا ہے۔‘‘ (تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’الاتقان‘‘ ج ۱ ص: ۳۱) شان نزول کے بارے ایک سے زیادہ روایات ہونا: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آیت کے شانِ نزول کے بارے متعدد روایات ہوتی ہیں ، لہٰذا ایسی صورت میں ایک مفسر کی یہ آراء ہوتی ہیں : ۱۔ جب شانِ نزول کے بارے واضح صیغے کا استعمال نہ ہوا ہو جیسے کوئی یہ بیان کرے ’’نزلت ھذہ الآیۃ فی کذا‘‘ یا یوں کہے: ’’احسبھا نزلت فی کذا‘‘ تو ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کیوں کہ اس سے مراد تفسیر ہوتی ہے اور یہ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے کہ یہ بات بھی آیت میں داخل ہے اور اس سے یہ بات حاصل ہوتی ہے، ان الفاظ کے ساتھ سب نزول بیان کرنا صرف اسی صورت میں مقصود ہوتا ہے جب کوئی ایسا قرینہ آجائے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ اس سے سبب کو ذکر کرنا مقصود ہے۔ ۲۔ جب کوئی صیغہ غیر واضح ہو مثلاً ایک بیان کرنے والا یوں کہے: ’’نزلت فی کذا‘‘ اور