کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 131
اسی طرح راوی جب یہ کہے: میرے خیال میں یہ آیت اس بارے نازل ہوئی تھی یا یوں کہے: ’’مَا اَحْسِبُ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ نَزَلَتْ اِلَّا فِیْ کَذَا‘‘ تو راوی اس صیغہ کے ساتھ سبب کے بارے یقینی بات نہیں کرتا، چناں چہ یہ دونوں صیغے سبب کو ظاہر کرنے کے لیے بطور احتمال استعمال ہوتے ہیں ۔ مثال:… سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا زبیر کا ایک انصاری آدمی سے حرہ کی پانی والی کھال کے بارے جھگڑا ہو گیا، وہ دونوں اسی پانی سے اپنے کھجوروں کے باغات کو سیراب کیا کرتے تھے، انصاری نے کہا پانی گزرنے دو لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا، چناں چہ جب یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا: زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرنے کے بعد پانی اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دیا کرو، انصاری غصے سے بولا کہنے لگا: یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے اس لیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے (زبیر رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: اپنے کھیت کو پانی دے کر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیروں تک پہنچ جائے، پھر اسے اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑنا، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا پورا حق دیا، چناں چہ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میرا خیال یہی ہے کہ آیت ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ﴾ (النساء: ۶۵) ’’پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے۔‘‘ اسی قضیہ کے بارے ہوئی ہے۔ (اخرجہ البخاری ومسلم واھل السنن وغیرھم) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : راویوں کا یہ کہنا کہ ’’نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃُ فِیْ کَذَا‘‘ یہ آیت اس بارے نازل ہوئی، سے کبھی شانِ نزول مراد ہوتا ہے اور اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ چیز آیت میں داخل ہے اگرچہ سبب نہیں ہے۔ علماء کا صحابی کے قول: ’’نزلت ھذہ الآیۃ فی کذا‘‘ کے بارے اختلاف ہے کہ اسے