کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 130
دیا گیا ہو یا کسی کام کے لیے روکا گیا ہو تو اس کا حکم اس خاص شخص کے لیے بھی ہو گا اور اس کے قسم کے دوسرے لوگوں کے لیے بھی، اور اگر اس آیت میں کسی کی مدح یا مذمت بیان کی گئی ہو تو وہ بھی اس خاص شخص اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں کو شامل ہوگی۔[1]
۲۔ ایک جماعت کا مذہب ہے کہ الفاظ کے عموم کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ خاص سبب کا اعتبار ہوگا کیوں کہ عام الفاظ خاص سبب کی صورت کے لیے دلیل ہوتے ہیں ۔ اس لیے دوسری صورت کے لیے قیاس جیسی کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہوگی، تاکہ خاص سبب کی روایت کو نقل کرنے کا کوئی فائدہ باقی بچ جائے، نیز سبب اور مسبب میں وہی موافقت قائم رہے جو سوال اور جواب میں ہوتی ہے۔
سبب نزول کے لیے مستعمل کلمات
سبب نزول کا صیغہ یا تو سبب کے بارے واضح نص ہوگا یا پھر اس میں احتمال ہوگا۔
۱۔ صیغہ سبب کے بارے واضح نص اس وقت ہوتا ہے جب راوی یہ کہے: ’’اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے۔‘‘ یا کسی حادثہ یا سوال کے ذکر بعد نزول کے مواد پر ’’فا‘‘ تعقییہ ہو مثلاً یہ کہے: ’’اس طرح بیان کیا گیا‘‘ یا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے دریافت کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ یہ دونوں صیغے شانِ نزول کو واضح کرنے والے ہیں ۔
۲۔ صیغہ میں احتمال اس وقت پایا جاتا ہے جب آیت میں احکام پائے جاتے ہوں اور راوی اسے بیان کرتے ہوئے یوں کہے کہ ’’یہ آیت فلاں سبب کی بناء پر نازل ہوئی تھی۔‘‘ راوی کی اس بات سے کبھی تو سبب نزول مراد ہوتا ہے اور کبھی یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ بات آیت کے معانی میں داخل ہے۔
مثال: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت ﴿نِسَائُ کُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ﴾ عورتوں سے خلافِ فطرت (دبر میں )مباشرت کرنے کے بارے نازل ہوئی تھی۔ (اخرجہ البخاری)
[1] اگر الفاظ کے عموم کا اعتبار نہ کیا جائے اور اسے صرف اس معین شخص کے ساتھ کر دیا جائے تو تقریباً تمام اوامرونواہی صرف عہد صحابہ کے ساتھ خاص ہو جائیں گے جب کہ یہ قرآن تمام لوگوں کی اصلاح کے نازل ہوا اور اسی کی تعلیمات وپیغمات عالمگیر ہیں ۔ (ع۔م)