کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 129
نزول کی صورت کے علاوہ بھی نافذ العمل سمجھتے تھے۔ اسی طرح ظہار کی آیات اوس بن صامت یا سلمہ بن صنحر رضی اللہ عنہ کے بارے نازل ہوئیں لیکن ان کا حکم عام ہے، چناں چہ خاص اسباب میں نازل ہونے والی آیات کے عمومی الفاظ کو حجت بنانا اہل علم کے ہاں عام ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عموماً ایسے ہی ہوتا ہے کہ جب کسی خاص آدمی کے بارے کوئی آیت نازل ہو تو راوی کہہ دیتے ہیں یہ آیت فلاں شخص کے بارے ہوئی تھی، جیسے: ظہار والی آیت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے بارے ہوئی، آیت کلالہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے اتری اور اسی طرح آیت ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا.﴾ (المائدہ: ۴۸) ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔‘‘ بنوقریظہ اور بنو نضیر کے بارے نازل ہوئی۔ اسی طرح راوی تذکرہ کر دیتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے، یہ یہود ونصاریٰ کے بارے اور یہ مومنوں کی ایک جماعت کے بارے نازل ہوئی تھی۔ جو لوگ یہ بیان کرتے ہیں ، ان کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا یہ آیت انہی مذکورہ لوگوں کے ساتھ خاص تھی، دوسرے لوگوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، کوئی بھی مسلمان بلکہ کوئی صاحب عقل یہ نہیں سکتا۔ کسی خاص آدمی کے بارے نازل ہونے والی آیت کے عام الفاظ کو اگرچہ کچھ متنازعہ بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عام الفاظ اپنے سبب کے خاص ہیں ، لیکن یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کتاب وسنت کے عمومی الفاظ کسی بھی شخص کے ساتھ خاص ہیں ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت کا حکم اس قسم کے لوگوں کے ساتھ خاص ہے یعنی اس جیسے تمام لوگوں کے لیے وہ حکم عام ہوگا اور اس آیت میں عموم صرف لفظی لحاظ سے نہ ہوگا۔ اسی طرح وہ آیت جو کسی معین سبب کے تحت نازل ہوئی ہو اور اس میں کسی کام کا حکم