کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 127
بارے یہ آیات نازل ہوئیں تھیں ۔ راحج قول کے مطابق ’’ال‘‘ اس وقت عموم کا فائدہ دیتا ہے جب یہ موصولہ ہو یا جمع کو معرفہ بنایا گیا ہو۔ ’’الاتقی‘‘ میں ’’ال‘‘ موصولہ نہیں ہے، کیوں کہ ’’ال‘‘ موصولہ افعل التفصیل کے صیغے کے ساتھ نہیں آتا۔ اسی طرح ’’الاتقی‘‘ جمع بھی نہیں ہے۔ بلکہ مفرد ہے اور اس ’’ال‘‘ کا عہدی ہونا ثابت کر رہا ہے نیز افعل التفصیل کا صیغہ تمیز پر دلالت کرتا ہے اس لیے یہ امر اسی شخص تک محدود ہے جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ واحدی کہتے ہیں : ’’تمام مفسرین کے نزدیک ’’الاتقی‘‘ سے مراد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ عروہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سات ایسے غلاموں کو (خرید کر) آزاد کیا جنہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف دی جاتی تھی۔ بلال، عامر بن فہیرہ، نہدیہ اور ان کی بیٹی، امِ عیسیٰ اور بنوموئل کی لونڈی ، چناں چہ انہی کے بارے آیات… ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی. الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی. وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی. اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی. وَلَسَوْفَ یَرْضٰی.﴾ (اللیل: ۱۷۔۲۱) نازل ہوئیں تھیں ۔ (اخرجہ ابن ابی حاتم) عامر بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن وہ کہتے ہیں : ﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی﴾ سے آخر تک آیات ان کے بارے نازل ہوئیں تھیں ۔ (اخرجہ الحاکم وصححہ) جب سبب خاص ہو اور آیت عموم کے صیغہ کے ساتھ نازل ہو تو اس بارے اہل اُصول کا اختلاف ہے کہ کیا الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوگا یا سبب کے حضوص کا؟ اس طرح یہ دو آراء بن جاتی ہیں : ۱۔ جمہور کے نزدیک الفاظ کی عمومیت کا اعتبار ہوگا، چناں چہ الفاظ کے عموم کا جو حکم نکالا جائے گا، اس کا اطلاق خاص سبب کے علاوہ اس جیسے دوسرے معاملات میں بھی ہوگا، مثلاً لعان کی آیات ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کے بارے نازل ہوئیں اس کی تفصیل سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہلال بن امیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیوی پر شریک