کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 126
عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں : قرآن میں میری برا ء ت کے علاوہ ہمارے بارے کچھ نازل نہیں ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ مروان نے یزید کے لیے بیعت کا تذکرہ کیا تو کہنے لگا: یہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی سنت ہے تو عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ ہر قل اور قیصر کی سنت ہے، مروان نے کہا: اسی شخص کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لکما……﴾ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا: مروان جھوٹ بولتا ہے، اللہ کی قسم عبدالرحمان وہ شخص نہیں ہے، اگر میں چاہوں تو اس شخص کا نام بتا سکتی ہوں جس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ الفاظ کے عموم کے اعتبار ہوگا نہ کہ خاص سبب کا جب آیت کا مفہوم عموم میں سب کے ساتھ متفق ہو یا خصوص میں متفق ہو تو عام کو اس کے عموم اور خاص کو اس کے خصوص پر محمول کیا جائے گا۔ پہلی مثال:﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضُِّ قُلْ ہُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ.﴾ (البقرہ: ۲۲۲) ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہودیوں میں جب کسی عورت کو حیض آجاتا تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے، اسے کھانے پینے میں شریک کرتے اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ گھر میں رکھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے پوچھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضُِّ ……﴾ نازل فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں گھروں میں اپنے ساتھ رکھو اور خلوتِ صحیحہ کے علاوہ ان سے سب کچھ کر سکتے ہو۔‘‘ دوسری مثال:… اللہ تعالیٰ کا فرمان﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی. الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی. وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی. اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی. وَلَسَوْفَ یَرْضٰی.﴾ (اللیل: ۱۷۔۲۱) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے نازل ہوا تھا۔ ’’الْاَتْقٰی‘‘ میں افعل التفصیل کے صیغے کو الف لام عہدی کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ اسی شخص کے لیے خاص ہے جس کے