کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 124
ہی مضبوط ذریعہ ہے۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں : اسبابِ نزول کی معرفت آیت کے سمجھنے میں معاون بنتی ہے، کیوں کہ مسبب کا علم سب سے ہی حاصل ہوتا ہے، جیسے مروان کو آیت ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ﴾ کا مفہوم سمجھنے میں مشکل پیش آئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں آیت کے سبب نزول کے بارے آگاہی دی۔ اسی طرح آیت… ﴿اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ. (البقرہ: ۱۵۸) بھی اس کی مثال ہے، اس کے ظاہری الفاظ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی فرضیت کا تقاضا نہیں کرتے، کیوں کہ گناہ کا اٹھا لیا جانا اباحت کا فائدہ دیتا ہے وجوب کا نہیں ، جب کہ بعض لوگوں کا یہی مذہب ہے۔ اس کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں ۔[1] عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے جب اسی (عدم وجوب کے) مفہوم کو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے سبب نزول کی وجہ سے اس بات کی تردید کی، اس کا شانِ نزول یہ تھا کہ صحابہ نے صفاومروہ کی سعی کو گناہ خیال کیا، کیوں کہ وہ جاہلیت میں بھی یہ کام کرتے تھے، صفا پہاڑی پر اساف اور مروہ پر نائلہ نامی بت تھے چناں چہ اہل جاہلیت جب سعی کرتے تو ان بتوں کو چھوتے تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ عروہ بن زبیر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ مجھے اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا﴾ کے بارے تو بتائیے، میرے خیال میں تو یہ ہے جو شخص ان کے درمیان سعی نہیں کرتا اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں : میرے بھانجے! تم نے غلط کہا، اگر یہ بات تمہاری تاویل کے مطابق ہوتی تو الفاظ اس طرح ہوتے: ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَّا
[1] یعنی وہ اس کے عدم وجوب کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس پر کوئی حرج نہیں ۔