کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 122
خواہش ہوتی ہے کہ کچھ کیے بغیر اس کی تعریف کی جائے تو پھر ہم سب کو ہی عذاب ہوگا، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت سے تمہارا کیا لینا دینا، یہ تو اہل کتاب کے بارے نازل ہوئی تھی، پھر انہوں نے آیت:
﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ وَ اشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ.﴾ (آل عمران: ۱۸۷)
کی تلاوت کی۔ پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (اہل کتاب)سے کوئی بات پوچھی تھی تو انہوں نے اسے چھپا کر کوئی اور بات کہہ دی اور نکل گئے اور ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جو پوچھا تھا وہ انہوں نے بتا دیا ہے اور اس پر ان کی تعریف ہوگی اور خوشی انہیں اس بات کی تھی کہ انہوں نے اصل بات کو چھپا لیا ہے۔ (اخرجہ البخاری ومسلم وغیرھما)
۳۔ جب قرآن کے الفاظ عام ہوں لیکن اس کی تخصیص پر کوئی دلیل آجائے تو شانِ نزول کی معرفت تخصیص کو صرف اسی صورت کے لیے محدود کر دیتی ہے ، لہٰذا اسے خارج کرنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ سبب بننے والی ضرورت تو عمومی الفاظ میں لازمی طور پر شامل ہوگی، لہٰذا اسے الگ کرنا جائز نہیں ہوگا کیوں کہ اجتہاد کی بنیاد ظن پر ہوتی ہے۔ جمہور یہی موقف رکھتے ہیں ۔
اس کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیہِمْ اللّٰہُ دِیْنَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ.﴾ (النور: ۲۳۔۲۵)
’’بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن ان کی زبانیں ، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ