کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 121
’’شانِ نزول کے بارے کہا جاتا ہے کہ آیات اس واقعہ کے رونما ہونے والے دنوں میں نازل ہوئیں ، یہ صرف اس لیے کہ واحدی کی اس بات سے احتراز کیا جا سکے جو انہوں نے سورت فیل کی تفسیر کرتے ہوئے لکھی ہے کہ اس سورت کے نزول کا سب اہل حبشہ کی آمد تھا۔ حالاں کہ ان کی آمد کا سبب نزول سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس میں تو گزرے ہوئے حالات کی خبر دی گئی ہے، جس طرح قوم نوح، قوم عاد وثمود اور بناء کعبہ کے بارے آگاہی دی گئی ہے، اور اسی طرح آیت:
﴿وَاتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلاً.﴾ (النساء: ۱۲۵)
تو ابرہیم علیہ السلام کو خلیل بنانا اس کا شانِ نزول سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسبابِ نزول کی معرفت کے فوائد:
اسبابِ نزول کی معرفت کے اہم فوائد یہ ہیں :
۱۔ اس حکمت کو بیان کرنا جس کی وجہ سے کسی حکم کے بارے قانون سازی کی گئی ہو، اس طرح اس سے عمومی مصلحتوں کے لیے ان شرعی سہولتوں کا ادراک ہوتا ہے جن کی بدولت حوادث وواقعات سے عہدہ برآ ہو کر امت کے لیے رحمت کا سامان مہیا ہوتا ہے۔
۲۔ اہل علم کا یہ کہنا کہ قرآنی حکم اگرچہ عام لفظوں میں نازل ہوا، لیکن مخصوص ہونے کی وجہ سے اسی خاص سب کا اعتبار ہوگا نہ کہ الفاظ کے عموم کا، تو یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جس کی وضاحت آئندہ صفحات میں آئے گی۔ اس کی مثال اس آیت سے دی جاتی ہے۔
﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.﴾
(آل عمران: ۱۸۸)
’’وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں ، آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھیں ، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔‘‘
بیان کیا جاتا ہے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ عبداللہ بن عباس سے جا کر کہو کہ اگر ہر آدمی کو اس وجہ سے عذاب ہوگا کہ وہ اس چیز سے خوش ہوتا ہے جو اسے ملتی ہے اور اس کی