کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 120
ہیں : بہت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس کی سماعت تمام چیزوں پر وسیع ہے، میں خولہ بنت تعلبہ کی باتیں سن رہی تھی جب وہ اللہ کے رسول سے اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھیں ، لیکن ان کی کچھ باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہی تھیں ، وہ کہہ رہی تھیں : اے اللہ کے رسول! اس نے میری جوانی کو کھا لیا اور میرے پیٹ کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب میں بوڑھی ہوگئی اور اولاد کے قابل نہ رہی تو مجھ سے ظہار کر لیا، پھر کہنے لگیں : اے اللہ! میں تجھ سے شکوہ کرتی ہوں ، عائشہ فرماتی ہیں : وہ ابھی وہیں تھیں کہ جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کر نازل ہوئے: ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا﴾ (المجادلہ: ۱) ’’یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔‘‘ (اخرحہ ابن ماجۃ وابن ابی حاتم، والحاکم وصححہ وابن مردویہ، والبیہقی) اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہر آیت کا شانِ نزول تلاش کرنا شروع کر دے، کیوں کہ قرآن کا نزول حوادثات وواقعات یا سوال واستفسار کی وجہ سے ہی نہیں تھا، بلکہ ابتداء میں قرآن ایمانی عقائد، فرائض اسلام اور انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے قوانینِ الٰہی کے اظہار کے لیے تھا۔ جعبری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’قرآن کا نزول دو اقسام پر ہوا: (۱) ابتدائی نزول(۲) کسی واقعہ یا سوال کی وجہ سے ہونے والا نزول۔(الاتقان، ص: ۲۸، ج۱) چناں چہ سبب کی تعریف یہ ہے: ’’وہ معاملہ جس کے وقوع پذیر ہونے پر قرآن کریم اس حادثہ یا سوال کے جواب میں نازل ہوا۔‘‘ اسبابِ نزول کے علم کو بہت زیادہ وسعت دینا زیادتی ہے اور گزشتہ قوموں کے واقعات وحالات کو بھی اس علم کے تحت لانا زیادتی ہوگی۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :