کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 119
وہ اس صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے جب سند اس تابعی تک متصل ہو اور وہ تابعی ان ائمہ تفسیر میں سے ہو جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے علم حاصل کیا مثلاً مجاہد، عکرمہ اور سعید بن جبیر رحمہم اللہ وغیرہ نیز کوئی دوسری مرسل روایت اس کی تائید کرتی ہو۔
واحدی رحمہ اللہ نے اپنے دور کے علماء کا اسبابِ نزول کی روایات کے بارے تساہل سے کام لینے پر ان کا خوب تعاقب کرتے ہوئے ان پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے اور انہیں سخت وعید سے ڈرایا ہے وہ کہتے ہیں :
آج ہر کوئی باتیں بنا لیتا ہے، خوب جھوٹ گھڑ کر جاہلیت کے گھوڑے پر سوار ہے جاہل انسان آیت کے شانِ نزول کے بارے کچھ کہنے پر جو وعید ہے اس کی کوئی پروا نہیں کرتا۔
سبب نزول:
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ سبب نزول کا انحصار دو چیزوں پر ہے۔
۱۔ کسی پیش آنے والے حادثے پر قرآن نازل ہو، جیسے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت﴿وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ.﴾ (الشعرا: ۲۱۴)نازل ہوئی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفاء پہاڑی پر چڑھ کر یا صباہ حاہ کی آواز لگائی، لوگ آپ کے پاس اکٹھے ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ شہسواروں کا ایک اس پہاڑ کے دامن سے نکل کر تمہارے اوپر حملہ کرنے والا ہے، بتاؤ! تم مجھے سچا جانو گے؟ انہوں نے کہا: ہم نے کبھی آپ کو جھوٹ کہتے ہوئے نہیں سنا، آپ نے فرمایا: میں سخت عذاب سے تم لوگوں کو ڈرانے والا ہوں ، اس پر ابولہب[1] نے کہا: آپ برائی سے دوچار ہوں ، آپ نے اس کام کے لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ پھر وہ اٹھا تو سورت﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ.﴾ (اللھب) نازل ہوئی۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو قرآن اس کے حکم کے ساتھ نازل ہوا۔ جیسا کہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے کہ جب ان سے ان کے شوہر اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کیا تو وہ اس کا شکوہ کرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
[1] اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب بن ھاشم تھا۔