کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 118
پھر شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسبابِ نزول پر ایک کتاب لکھی، امام سیوطی نے اس کے مسودے کا ایک جزء دیکھا تھا پوری کتاب ان کی نظر سے نہیں گزری، پھر امام سیوطی اپنے بارے کہتے ہیں : میں نے اس موضوع پر ایک مختصر مگر جامع کتاب لکھی کہ اس جیسی اس فن میں کوئی اور کتاب نہیں ہے، میں نے اس کا نام ’’لباب المنقول فی اسباب النزول‘‘ رکھا ہے۔ اسبابِ نزول کی معرفت کے ذرائع: اسبابِ نزول کی معرفت میں علماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت صحیح روایات پر اعتماد کرتے ہیں ، جب کہ اس بارے صحابی کی خبر بھی صریح اور مرفوع کے حکم میں ہو اس کی اپنی رائے سے نہ ہو۔ واحدی کہتے ہیں : ’’اسبابِ نزول کے بارے نزول قرآن کا مشاہدہ کرنے والوں ، اسبابِ نزول سے واقفیت رکھنے والوں ، اس علم کی بحث وتمحیص اور اس کے حصول کی کوشش کرنے والوں سے سنی ہوئی روایت اور کلام کے علاوہ کچھ بھی کہنا جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ لوگ اس بارے بہت احتیاط سے کام لیتے تھے، اور بغیر ثبوت کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے تھے۔‘‘ امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں : ’’میں نے عبیدہ ( رحمہ اللہ ) [1] سے قرآن کی آیت کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کہو، جو لوگ قرآن کے اسبابِ نزول کا علم رکھتے تھے وہ جا چکے ہیں یعنی صحابہ کرام۔‘‘ جب ابن سیرین جیسا جلیل القدر تابعی عالم روایت کی تلاش اور فیصلہ کن بات کے لیے یہ کہتا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحیح اسبابِ نزول کی واقفیت حاصل کرنا واجب ہے، اسی لیے اس بارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ان اقوال پر ہی اعتماد کرنا پڑتا ہے جن کے الفاظ حسنِ روایت کے قائم مقام ہوں یعنی ان میں یقینی طور پر یہ بتایا گیا ہو کہ اس آیت کا یہ شانِ نزول ہے۔ امام سیوطی کا مذہب ہے کہ شانِ نزول کے بارے کسی تابعی کا صریح قول جو کہ مرسل ہوتا ہے
[1] عَبِیْدہ بن عمرو السلمانی: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو سال پہلے مسلمان ہوئے لیکن آپ سے ملاقات نہیں کر سکے۔