کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 117
مبحث: 6 اسبابِ نزول قرآن کریم انسانیت کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے نازل ہوا، یہ اس کے لیے ایسی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس سے زندگی بہتر ہوتی ہے اور اس کے ستون اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے پر قائم ہیں ، نیز یہ قرآن ماضی کے حالات، اپنے نزول کے دور کے واقعات اور مستقبل کے بارے خبریں فراہم کرتا ہے۔ شروع میں قرآن کا اکثر حصہ انہی عام مقاصد کے لیے نازل ہوا، لیکن چوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں گزاری ہوئی اپنی زندگی میں سیرتِ طیبہ کے بہت سے واقعات کا مشاہدہ کیا تھا اور ان کے درمیان ایسے خاص حادثات بھی پیش آئے جن کے شریعت الٰہی کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی یا انہیں کسی معاملے میں الجھن پیدا ہوئی تو اس بارے اسلام کا فیصلہ جاننے کے لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیا تو قرآن اس پیش آنے والے مسئلہ پر نازل ہوتا، چناں چہ اس طرح اسبابِ نزول کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کام میں علماء کا کردار: علومِ قرآنیہ پر تحقیق کرنے والے علماء نے اسبابِ نزول کی پہچان پر خاص توجہ دی ہے۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر میں اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور ایک جماعت نے خاص طور پر اسی علم پر قلم اٹھایا، ان علماء میں سب سے مشہور امام بخاری کے استاد علی بن مدینی ہیں ، ان کے بارے امام واحدی[1] نے اسباب النزول کے نام سے کتاب لکھی۔ پھر امام جعبری[2] نے واحدی کی کتاب کا اختصار لکھا، اس کی اسناد کو حذف کر دیا اور کوئی اضافہ نہیں کیا۔
[1] ان کا نام ابوالحسن علی بن احمد النحوی تھا مفسر تھے، ان کی وفات ۴۲۷ہجری میں ہوئی۔ [2] ان کا نام برہان الدین ابراہیم بن عمر تھا، انہیں علوم القرآن سے کافی شغف تھا، انہوں نے ’’روضۃ الطرائف فی رسم المصاحف‘‘ اور ’’کنز المعانی‘‘ جو کہ الشاطبیہ فی القراء ات کی شرح ہے تالیف کی، یہ ۷۳۲ ہجری میں فوت ہوئے۔