کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 111
دے کر اور مشرکین کو وہاں سے نکال کر ان پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا ہے، نیز یہ کہ مسلمانوں نے مشرکین کی شرکت کے بغیر اکیلے حج کیا، کوئی مشرک بیت الحرام میں نہیں تھا۔ جب کہ اس سے پہلے مشرکین بھی مومنین کے ساتھ مل کر حج کرتے تھے، چناں چہ اتممت علیکم نعمتی میں اسی نعمت کے پورا ہونے کا ذکر ہے۔
قاضی ابوبکر باقلانی ’’الانتصار‘‘ میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیات کے بارے مختلف اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ان تمام اقوال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بھی قول ثابت نہیں ، کہنے والے نے اپنے اجتہاد اور غالب گمان کی بناء پر یہ کہا ہے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راوی نے آپ کی وفات والے دن یا اس سے کچھ دن پہلے آپ کی بیماری کے ایام میں وہ آیت سنی، جب کہ اس کے بعد کسی اور آدمی نے کوئی بات سنی جو پہلا نہیں سن سکا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جب یہ آخری آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری آیات کے ساتھ ملا کر تلاوت کیا ہو، پھر دوسری آیات کو اس آخر میں نازل ہونے والی وحی کے بعد لکھنے کا حکم دیا ہو اور سننے والے کو یہ لگا کہ شاید یہ سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے پہلے نازل ہونے والی آیات
علماء نے موضوعاتی اعتبار سے پہلے نازل ہونے والی آیات پر بھی خصوصی توجہ دی ہے، جن میں سے کچھ کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
کھانے کے متعلق:
خوراک کے بارے سب سے پہلے مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی:
﴿قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.﴾ (الانعام: ۱۴۵)
’’کہہ دیجئے میں اس وحی میں ، جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز