کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 108
ذریعے کسی خاص ذمہ داری کے لیے کسی خاص شخص کی طرف وحی کی جائے تو اسے نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب کہ ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ سے رسالت پر دلالت ہے، کیوں کہ جب فرشتے کے ذریعے کسی عام ذمہ داری کے لیے کسی خاص شخص کی طرف وحی کی جائے تو اسے رسالت کہا جاتا ہے۔ (انظرالبرہان فی علوم القرآن للزرکشی بتحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم ج ۱، ص ۲۰۶ ومابعد ھا)
سب سے آخر میں نازل ہونے والی وحی:
اس بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں :
پہلا قول:… کہا جاتا ہے کہ سب سے آخر میں آیت ربا [1]نازل ہوئی، امام بخاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا﴾ (البقرہ: ۲۷۸) سب سے آخر میں نازل ہوئی تھی۔
دوسرا قول:… امام نسائی اور دیگر محدثین نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ قرآن کریم میں سب سے آخر میں آیت ﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ……﴾ (البقرہ: ۲۸۱) نازل ہوئی تھی۔
تیسرا قول:… آیت دین سب سے آخر میں نازل ہوئی۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہیں خبر پہنچی کہ عرش کی طرف سے سب سے آخر میں اترنے والی آیت ’’آیتِ دین‘‘ ہے۔ اس سے مراد سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۸۲ ﴿یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْْٓا اِذَا تَدَایَنْْتُمْْ بِدَیْنٍ اِلٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْْتُبُوْْہُ……﴾ (البقرہ: ۲۸۲) ہے۔
ان تینوں اقوال کے درمیان یہ تطبیق دی گئی ہے کہ یہ تینوں آیات جس طرح قرآن میں ایک ترتیب کے ساتھ ہیں اسی طرح نازل ہوئیں ، آیت ربا، پھر ﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ……﴾ اور پھر آیت دین، چوں کہ ان کا قصہ ایک ہی ہے اس لیے ہر راوی نے اس کے بعض حصہ کو سب سے آخر میں نازل ہونے والی وحی قرار دے دیا اور یہی بات صحیح ہے۔ لہٰذا ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
[1] سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۷۸ کو آیت ربا کہا جاتا ہے۔ (ع۔م)