کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 105
آگیا، میں نے اپنے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں دیکھا، پھر میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اچانک مجھے وہ (یعنی جبرئیل علیہ السلام ) دکھائی دیے، مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی، میں خدیجہ( رضی اللہ عنہا ) کے پاس آیا، انہیں حکم دیا تو انہوں نے مجھے چادر میں لپیٹ دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنذِرْ.﴾ نازل فرمائی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس میں مکمل سورت کے متعلق دریافت کیا گیا تھا تو جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اقراء سے پہلے سورۃ المدثر مکمل نازل ہوئی تھی، جب کہ سب سے پہلے سورۃ العلق کا ابتدائی حصہ ہی نازل ہوا تھا۔
اس کی تائید صحیحین کی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے، اس میں بھی ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فترۃِ وحی کے دور کے بارے فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، اچانک دیکھا تو وہی فرشتہ تھا جو حراء میں میرے پاس آیا تھا، وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر براجمان تھا۔ چناں چہ میں (گھر) لوٹا، میں نے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، انہوں نے مجھے لپیٹ دیا پھر اللہ تعالیٰ نے ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ نازل کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حراء والے پہلے واقعہ کے بعد کا ہے، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ فترۃِ وحی کے بعد سب سے پہلے سورۃ المدثر نازل ہوئی تھی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے جو اپنے اجتہاد سے بیان کیا ہے اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو مقدم کیا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ سب سے پہلے اقرا کی وحی نازل ہوئی، اس کے بعد مکمل طور پر نازل ہونے والی یا فترۃِ وحی کے بعد نازل ہونے والی سورت ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ ہے۔
یا رسالت کے لیے ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ اور نبوت کے لیے ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ کا نزول ہوا۔
تیسرا قول:… یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی۔
شاید اس سے مراد یہ ہو کہ مکمل طور پر جو سورت سب سے پہلے نازل ہوئی۔
چوتھا قول:… یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہرسورت سے پہلے نازل ہوئی، اس کی دلیل مرسل روایات ہیں ۔