کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 100
ہے۔ سوائے سورۃ حج کے، کیوں کہ اس کے آخر میں یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے علماء نے اس آیت کو مکی کہا ہے۔
۴۔ انبیا علیہم السلام اور سابقہ امتوں کے واقعات پر مشتمل ہر سورت مکی ہے، سوائے سورۃ البقرہ کے۔
۵۔ سورۃ البقرہ کے علاوہ ہر وہ سورت جس میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کا قصہ ہے وہ مکی ہے۔
۶۔ سورۃ البقرہ اور آلِ عمران کے علاوہ ہر وہ سورت جن کی ابتداء حروف تہجی سے ہوتی ہے وہ مکی ہے، یعنی جن سورتوں کے شروع میں ’’الٓمٓ‘‘، ’’الٓر‘‘ اور ’’حٓمٓ‘‘ جیسے حروف مقطعات ہیں ، جب کہ سورۃ الرعد کے بارے اختلاف ہے۔
یہ تو صرف قواعد وضوابط ہیں جب کہ موضوعاتی امتیازات اور اسلوب کی خصوصیات اجمالی طور پر درج ذیل ہیں :
۱۔توحید اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت:
٭ رسالت کے دلائل
٭ موت کے بعد دوبارہ اٹھنے اور جزاء کے دلائل
٭ قیامت اور اس کی ہول ناکیوں کا تذکرہ
٭ جہنم اور اس کے عذاب کا تذکرہ
٭ جنت اور اس کی نعمتوں کا دل نشیں تذکرہ
٭ مشرکین سے دلائل عقلیہ اور مشاہداتی نشانیوں کے ساتھ مجادلہ
۲۔ قانون کی عمومی بنیادیں رکھنا:
٭ ایسے اخلاقی فضائل کو وضع کرنا جن پر معاشرتی فطرت قائم ہوتی ہے
٭ خون ریزی سے متعلقہ مشرکین کے جرائم کی حوصلہ شکنی
٭ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھانے کی حوصلہ شکنی
٭ بیٹیوں کی زندہ دفن کرنے کی رسومات اور دیگر بری عادات پر پابندی
۳۔ انبیاء علیہم السلام اور سابقہ امتوں کے احوال کا خصوصی تذکرہ، تاکہ انہیں پتا چل جائے کہ پہلے لوگوں نے جھٹلایا تو ان کا کیا انجام ہوا: