کتاب: مباحث توحید - صفحہ 9
میں شامل ہو جاؤں گا۔اس پر سب طلبہ ہنس پڑے اور میرا نام کلی متواطی رکھ دیا(یعنی جس کے معنٰی واحد غیر متعین ہوں اور اس کا مقصداق اپنے ہر فرد پر مساوی ہوجیسے انسان)۔ [1] دوسرے دن میں اسباق میں شامل ہوگیا۔دورانِ سبق میں نے ایک مقام دریافت کیا مولانا احمد حسن رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے غور سے دیکھ کر جواب دیا اور اختتام سبق پر فرمایا کہ میرے مطالعہ والی کتابیں اس طالب علم کو دے دی جائیں۔اس طرح دو تین دن گزرے تھے جب میں کوئی سوال یا اعتراض کرتا تو مولانا پہلے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھتے اور پھر جواب دیتے۔تیسرے دن فرمایا کہ ہماری صاحبزادی کے ہاں سے پیغام آیا ہے کہ ایک طالب کا کھانا ہمارے گھر لکھوا دیا جائے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے سب انتظامات کر دیئے۔[2] مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کا شخصی تعارف: اسی طرح مولانا غلام نبی فرماتے ہیں کہ قریب زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب خوشابی نے ہم سے بیان کیا کہ ہم ہندوستان میں تحصیل علم کے لیے گئے تھے وہاں مولانا حسین علی صاحب بھی پڑھتے اور یہ مشہور تھا کہ مولوی حسین علی بیس صفحات فتح القدیر کے ایک گھنٹہ میں مطالعہ کرتے ہیں ہم دیکھنے کے لیے گئے کہ وہ کونسا طالب علم ہے جو ایک گھنٹہ میں بیس صفحات فتح القدیر کے مطالعہ کر لیتا ہے۔فتح القدیر بھی نو لکشور کے مطبع کی تقطیع کلاں پر چنانچہ ہم مولوی حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ یہ صحیح ہے؟۔انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں اس طرح مطالعہ کرتا ہوں اور پھر کتاب لیمپ پر لے کر بیٹھے اور ایک صفحہ سے عبارت شروع کی اور تمام صفحہ پورا کر کے فرمایا اب جو تم پوچھنا چاہتے ہو پوچھو۔پھر دوسرے صفحہ کی عبارت پڑھی اور اسی طرح فرمایا کہ پوچھو۔[3] اس سے مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کے وسعت مطالعہ اور قوت حافظہ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے اور بعدمیں مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ نے خلاصہ فتح القدیر بھی لکھا ہے جیسے اللہ نے ان کوعلم‘ وسعت مطالعہ اور قوت حافظہ سے نوازا تھا۔ مولانا حسین نیلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت کا حافظہ:’’حضرت جی بتایا کرتے تھے کہ میں نے ایک سال میں 22 کتب کا امتحان دیا تھا جن میں الشمس البازغہ‘حمد اللہ‘ قاضی مبارک‘امور عامہ‘عبد الغفور‘تکملہ‘متن متین‘توضیح وتلویح جیسی کتابیں بھی شامل ہیں۔جب امتحان کا وقت آیا تو سب سے پہلے میں نے امتحان دیا۔پانچ جید علماء کرام امتحان لینے والے تھے میں نے جن کتابوں کا امتحان دیا‘ علماء کرام کے اعتراضات کے جواب دیے اور انہیں مطمئن کیا۔آپ اس امتحان میں بھی اول آئے تھے۔‘‘[4]
[1] حالات مولانا حسین علی،ص 81 [2] حاشیہ فیوضات حسینی،ص 24-25 [3] ایضاً،ص 25 [4] حالات مولانا حسین علی،ص 82