کتاب: مباحث توحید - صفحہ 7
یہ سن کر حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے مدرسہ میں صحاح ستہ کی کتابیں جتنی تعداد میں موجود تھی وہ سب طالب علموں میں تقسیم کر دی گئی ہیں۔اب اور نسخے نہیں ہیں‘دیر سے آئے پہلے آنا تھا آپ کو کتابیں مل جاتیں۔البتہ اگر صرف اسباق کا سماع کرنا ہے تو سماع کر سکتے ہو۔بیٹھو بڑی خوشی سے سنو۔دوسری بات یہ ہے کہ اب ہمارے مدرسہ میں روٹی کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ آپ کی روٹی کا بندوبست مدرسہ کی طرف سے کیا جا سکے‘میں نے عرض کیا کہ آپ میری کتابوں کی فکر نہ فرمائیں اللہ نے چاہا تو میں کسی نہ کسی طرح کتاب کا مسئلہ حل کر لوں گا(یعنی طلبہ جب کسی کتاب کا مطالعہ کریں گے تو میں بھی وہاں کسی طالبِ علم کے پاس جاکر وہ مقام دیکھ لوں گا اور کتا ب کو ذہن نشین کر لوں گا)۔(ان شاء اللہ تعالیٰ) اب رہا روٹی کا مسئلہ تو وہ بھی ان شاءاللہ حل ہو جائے گا۔تو اس محلہ میں ایک بڑھیا دائی تھی میں نے اس سے کہا کہ میں ایک طالب علم ہوں دور دراز علاقہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہاں آیا ہوں اگر آپ صرف ایک وقت کی روٹی کا انتظام کر دیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اور آپ کے حق میں دعائیں کروں گا۔ چنانچہ اس بڑھیا نے ایک وقت کے لیے صرف ایک چباتی دینا منظور کیا۔میں چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک چپاتی پر گزارا کرتا اور طالب علموں کے پاس بیٹھ کر مطالعہ کر لیتا اور مسجد میں سو جاتا۔حضرت جی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کچھ دن تو میں نے دوسرے طلبہ کی طرح خاموشی سے حدیث پاک کے اسباق سنے۔لیکن میں نے سوچا کہ دور دراز علاقہ سے آیاہوں اوریہاں ہر طرح کی تکالیف برداشت کرنے کے ساتھ اسباق پڑھنے کا موقع ملا ہے اب اپنے دل میں جو شکوک وشبہات وارد ہوتےہیں ان کاازالہ بھی نہ ہوتویہ اور اضافہ فی التکلیف ہوگا۔لہٰذا خاموش نہ بیٹھنا چاہیے بلکہ جو شکوک وشبہات وارد ہوتے ہیں ان کا ازالہ استاد جی سے سوال کے ذریعے کر لینا چاہیے اور اپنی تسلی کر لینی چاہیے۔چنانچہ ایک مقام ایسا آیا جس میں اشکال پیدا ہوتا تھا میں وہ اشکال حضرت استاد صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا جس کا جواب آپ نے احسن طریق سے دیا۔مگر میں نےاس پرایک اوراشکال پیش کیاآپ نے پھر جواب دیا یہ سوال وجواب کا سلسلہ کچھ طول پکڑ گیا۔اس کے بعد جب تسلی ہوئی تو آگے سبق شروع ہوا۔اسباق ختم ہونے کے بعد حضرت استاد مکرم ومحترم نے مجھے اپنے پاس بلالیااورفرمایاحسین!یہ میری ذاتی کتابیں ہیں یہ تیرے پاس رہیں گی اور دو وقت کا کھانا میرے گھر سے تیرے لیے آئے گا۔پھر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک کی عبارت زیادہ تر مجھ سے پڑھواتے۔‘‘[1] مولانا صاحبزادہ صفی الرحمٰن ابن مولانا صاحبزادہ عبد الرزاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: پھر وہ وقت بھی آیا کہ حضرت گنگوہی سخت بیمار ہوگئے اسباق کا سلسلہ بند ہوگیا سبھی طلباء مدرسہ سے چلے گئے لیکن مولانا حسین علی نہ گئے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا حسین علی سے پوچھا بھئی تم کیوں نہیں گئے جبکہ تمہارے ساتھ والے طلباء چلےگئےہیں توحضرت صاحب نے جواباً عرض کیا:استادِ محترم میں اتنی دور سے پڑھنے کے لیے آیا ہوں اب پڑھ کر
[1] حالات مولانا حسین علی،ص 77-79