کتاب: مباحث توحید - صفحہ 66
زمانہ تدریس میں ہوا اور گردونواح کے علاقوں میں’’توحیدِ خالص‘‘ کے عنوان پر تقاریر نے ان کی خطابت کو جلا بخشی۔مدرسہ عزیزیہ بھیرہ کے مہتمم مولانا ظہور احمد بگوی رحمۃ اللہ علیہ معتدل مزاج بزرگ تھے ان کے پاس شکایتیں آنے لگیں۔مدرسہ کا مفاد اسی میں تھا کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ بھیرہ سے چلے جائیں اسی دوران اہل گجرات کا بلاوا آگیا اور مولانا بگوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی گجرات جانے کا مشورہ دیا۔[1]
توحید خالص کی دعوت وتبلیغ اور شرک وبدعت کی تردید ومذمت کا سلسلہ گجرات میں جاری رہا بلکہ یہاں پہنچ کر شدت اختیار کر گیا کیونکہ گجرات شرک وبدعت کا گڑھ تھا حضرت شاہ دولہ دریائی رحمۃ اللہ علیہ کا مزارمشرکانہ رسوم کا مرکز تھا اوران سے ندادواستمداد‘اور اولاد طلب کی جاتی تھی اور ان کےنام کی نذرومنت دی جاتی تھی۔ جہالت کا یہ حال تھا کہ انسانوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے(اس سے چھوٹے سروں والے انسان مراد ہیں جنہیں’’شاہ دولے کا چوہا‘‘کہا جاتا ہے)۔مولانا نے اس سلسلے کو للکارا اور درسِ قرآن‘خطباتِ جمعہ اور وعظ وارشاد کی مجالس میں اس کی کُھلے عام مذمت کی۔گجرات کے دیہی علاقوں میں مقیم علماء دیوبند نے آپ کا بھر پر ساتھ دیا اور سر پرستی فرمائی۔اپنے زیر اثر دیہاتوں میں ان کی تقاریر کروائیں ان میں انّہی کے اساتذہ کرام کے علاوہ حضرت مولانا غلام احمد ڈوگوی[2] اور حضرت مولانا شیخ محمدعبد اللہ صاحب ملکہ والے[3]خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
توحیدِ خالص پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ وتقاریر کی شہرت رفتہ رفتہ پنجاب بھر میں پھیل گئی۔ادھر وہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسِ احرارِ اسلام میں شامل ہو چکے تھے جو اردو خطباء کا بہت بڑا ادارہ تھی۔اس سے مولانا کا نام مشاہیر خطباء کی فہرست میں آگیا۔بڑے بڑے علماء آپ کو اپنے ہاں بلاکر تقاریر کراتے تھے جیسا کہ بابا عبد الشکور
[1] سوانح ِ حیات مولانا غلام اللہ خان،ص 38
[2] کھاریاں ضلع گجرات کے نواحی گاؤں’’ڈوگہ‘‘کے باسی تھے۔مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے فارغ التحصیل اور حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردِرشید تھے۔بیعت کا تعلق حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے تھا مدتوں مظاہر العلوم میں مدرس رہے اپنے علاقہ میں آکر قادیانیت کے خلاف بڑا کام کیا اور اصلاحِ عقائد کے سلسلے میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔آپ سے بڑے بڑے علماءفیض یاب ہوئے‘جن میں مولاناثناء اللہ امرتسری‘مولانا حکیم عبد الحق دہلوی اور مولانا محمد عبد اللہ ملکہ والے بہت مشہور ہوئے۔1942 میں وفات پائی( حیات شیخ القرآن،ص 36)
[3] آپ تحصیل کھاریاں کے موضح’’ملکہ‘‘باسی تھے۔اہل علم میں مولوی صاحب ملکہ والے ‘کے عرف سے مشہور تھے۔شیخ الہند مولانا حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا غلام احمد ڈوگہ کے شاگرد تھے۔عربی ادب میں خاص مہارت تھی بیعت کاتعلق حضرت شیخ الہندسے تھا ان کے بعد مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ واں بھچراں والوں سے رجوع کیا ان کے بعد مفتی محمد حسن صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق قائم کیا اور ان کے خلیفۂ اعظم ہوئے۔1953ء میں وفات پائی آپ عارفِ کامل‘فقیہہ شہیر اور مبلغ اسلام تھے۔ہندوستان بھر میں آپ کےعلمی تبحر کی دھوم تھی علاقے میں بڑا اثر تھا۔اصلاحِ عقائد کے عنوان پر بڑا کام کیا بڑے بڑے علماء آپ سے فیض یاب ہوئے۔مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری خود کو ان کا علمی جانشین بتاتے تھے(حیات شیخ القرآن،ص 36)