کتاب: مباحث توحید - صفحہ 20
مولانا الوانی رحمہ اللہ کے ہاں یہ پانچ آیتیں بھی محکم ہیں منسوخ نہیں ہیں اور مصنف نے ان کی نہایت عمدہ توجیہہ فرما دی ہے۔
عربی تفسیروں کے حوالے:
بطور تائید مصنف رحمہ اللہ نے عربی تفسیروں کےحوالےبھی دیے ہیں۔چونکہ ہر آیت کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں تھی لہٰذا متداول تفسیروں سے استفادہ کر کے ایک مکمل اور مستند تفسیر کی صورت اہل علم کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
تفسیر القرآن بالقرآن:
قرآن مجید کی بعض آیات‘بعض آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور یہ تفسیر‘تفسیر قرآن مجید کا سب سے بڑا درجہ ہے کیونکہ اللہ رب العزت اپنی مراد کو خوب جانتا ہے جو آدمی قرآن مجید کی آیت کی تفسیر میں غوروفکر کرے گا اس پر واضح ہوجائے گا کہ قرآن پاک کا بیان اگر ایک جگہ مجمل ہے تو دوسری جگہ اس کی تفصیل ہے ایک جگہ اگر اختصار ہے تو دوسری جگہ بسط وکشادگی ہے کیونکہ قرآن مجید کتاب متشابہ ہے کبھی ایک ہی بات کو تکرار سے لایا جاتا ہے‘جس جگہ اجمال حسین ہو وہاں اجمال اور جہاں تفصیل حسین ہو وہاں تفصیل ذکر کی گئی ہے۔کیونکہ ہر مقام میں حال ومقال کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں۔یہ قرآن مجید کا معجزانہ اسلوب ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [1]،[2] لکھتے ہیں:
’’فان قال قائل فما احسن طرق التفسير فالجواب ان احسن الطرق في ذالک ان یفسرالقرآن بالقرآن فما اجمل في مكان فانه قد فسر في موضع آخر ومااختصر في مكان فقدبسط في موضع آخر‘‘[3]
یعنی اگر کوئی پوچھے کہ طریف تفسیر میں سے کون سا طریقہ سب سے عمدہ ہے تو جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر قرآن کے ذریعے کی جائے کیونگہ جو ایک جگہ مجمل ہے وہ دوسری جگہ مفصل ہے۔تفسیر القرآن بالقرآن کی چند صورتیں:
٭ تفسیر مفردات القرآن بالقرآن
٭ تعین معنٰی المشترک بالقرآن
٭ تفسیر القرآن بسیاق القرآن
[1] تقی الدین،حافظ،شیخ الاسلام،مجاہد، ،ابوالعباس احمدبن عبد الحلیم ابن تیمیہ دمشقی،بحرین میں 621ھ میں پیدا ہوئے‘ حدیث،فقہ،اصول وغیرہ میں لاحواب آثار چھوڑے ہیں۔728ھ میں وفات پائی۔
[2] ابن کثیر،عماد الدین،حافظ،البدایہ والنہایہ،نفیس اکیڈمی،اردو بازار،کراچی،س،ن،14/781
[3] ابن تیمیہ،شیخ الاسلام،احمدبن عبدالحلیم،مقدمہ فی اصول تفسیر،مکتبہ علمیہ لاہور پاکستان،1388ھ،ص 29