کتاب: مباحث توحید - صفحہ 190
اسی طرح بحق فلاں دعا مانگنا بھی مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ البتہ یوں کہنا جائز ہے۔ اللهم انی اسئلک بمحبتی له وباتباعی ایاه۔ اسی طرح توسل بالذات بھی ثابت نہیں۔ و انت تعلم ان الادعیة الماثورة عن اهل البیت الطاهرین وغیرهم من الأئمة لیس یها التوسل بالذات المکرمة(صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم)[1]
توسل بالاموات پر بعض حدیثوں سے استدلال کیا جاتا ہے ان کی حقیقت بھی ملاحظہ ہو۔
پہلی حدیث:۔’’ عن عثمان بن حنيف رضي اللّٰه عنه أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم فقال ادع اللّٰه أن يعافيني فقال إن شئت اخرت لك فهو أعظم لاخرتك وإن شئت دعوت اللّٰه فقال ادعه فأمره أن يتوضأ ويصلي ركعتين ويدعو بهذا الدعاء اللّٰهم إني أسألك واتوجه اليك بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم نبي الرحمة‘‘[2]حاکم نے اس حدیث کو علی شرط الشیخین کہا ہے۔ ان حدیثوں میں حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی زندگی کا واقعہ مذکور ہے۔ لیکن بیہقی اور طبرانی نے معجم کبیر میں اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان کے پاس آیا کرتا تھا لیکن وہ توجہ نہیں فرماتے تھے آخر وہ شخص عثمان بن حنیف کو ملا اور اپنا حال بیان کیا تو انہوں نے اس کو وہی دعا سکھائی جوحضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اندھے کو سکھائی تھی اس دعاء میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو خطاب کر کے وسیلہ بنایا گیا ہے حالانکہ یہ واقعہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وفات کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت کے ہر طریق میں ابو جعفر مدائنی واقع ہے اسی لیے امام ترمذی نے لکھا ہے:هذا الحدیث لانعرفه الا من هذاالوجه من حدیث ابی جعفر و هو غیر الخطمی[3]اما م مسلم بن حجاج ابو جعفر مدائنی کو حدیثیں گھڑنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ کعبد اللّٰه بن مسور ابی جعفر المدائنی وغیره ممن اتهم بوضع الاحادیث وتولید الاخبار[4] اسی طرح ص 16 پر فرماتے ہیں ان ابا جعفر الهاشمی المدنی کان یضع احادیث کلام حق ولیست من احادیث النبی(صلی اللّٰه علیه وآله وسلم)وکان یرویها عن النبی(صلی اللّٰه علیه وآله وسلم)۔ امام نووی فرماتے ہیں ابو جعفر مدینی ان ضعیف راویوں سے ہے جو جھوٹی حدیثیں بناتے ہیں۔ اما ابو جعفر هذا هو عبداللّٰه بن مسور المدائنی ابو جعفر المدنی تقدم فی اول الکتابفی الضعفاء
[1] روح المعانى،6/126
[2] ابن عساکر،الاربعون البلدانیہ لابن عساکر،مكتبة القرآن – القاهرة،س،ن،،1/54
[3] امام حاکم،مستدرك حاكم،ادارہ پیغام القرآن،لاہور،2/202
[4] خطبة صحيح مسلم، ص 5